بہار کے مسلمان پرشانت کشور سے ہوشیار رہیں

*بہار کے مسلمان پرشانت کشور سے ہوشیار رہیں*

✍️اشفاق احمد القاسمی

پرشانت کشور جن سُراج تحریک کے بانی ہیں، یہ پچھلے دو سال سے بہار کا دورہ کر رہے ہیں اور اپنے لئے سیاسی زمین ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ؛ اس سے پہلے وہ سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابی حکمت عملی تیار کرتے تھے اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں، اس کامیابی نے انہیں اپنے لئے سیاسی مقام حاصل کرنے کی چاہت پیدا کر دی ہے؛ چنانچہ انہوں نے گاندھی جی کے یومِ پیدائش پر سیاسی جماعت تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے اور آئندہ بہار اسمبلی انتخاب میں تمام سیٹوں پر تنہا لڑنے کا اعلان کیا ہے، نیز پچھتر سیٹوں پر مسلم امیدوار کھڑا کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

پرشانت کشور نے اپنے دورہ کے دوران مسلم سیاست پر کھل کر بات کی ہے اور مسلمانوں کو سیکولر پارٹیوں کا ووٹ بینک بننے کے بجائے اپنا سیاسی مقام پیدا کرنے اور اپنے لوگوں کو قائد بنانے پر زور دیا ہے؛ اسی بات سے مسلمان اس پر لٹو ہو رہے ہیں،مسلم رہبران اور نوجوان بڑی تعداد میں اس کی تحریک سے جڑ رہے ہیں، حالانکہ اس کے پیچھے اس کا مقصد اپنا الو سیدھا کرنا ہے ؛ کل کی بات ہے کہ پٹنہ کے گاندھی سبھاگر میں جن سراج کے بینر تلے ایک پبلک میٹنگ تھی، جس میں مختلف مدارس کے علماء اور طلبہ کی بڑی تعداد تھی اور سب اس کی حمایت میں پرجوش نعرے لگا رہے تھے؛ یہ منظر دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ اب ہمارے دینی ادارے بھی اپنی حیثیت بھول چکے ہیں اور بڑی آسانی سے ان سیاسی لٹیروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتے ہیں یا دانستہ ذمہ داران مدارس اپنی مفاد کی خاطر مدرسہ اور طلبہ کا استعمال کرتے ہیں؟

مہینہ قبل حج بھون پٹنہ میں مسلمانوں کے نام نہاد رہبران نے اس کی صدارت میں ایک پروگرام کیا اور اس کی تائید و حمایت کی قسمیں کھائ ؛ اس سے قبل رمضان المبارک میں اوکھلا کے مسلمانوں نے دعوت افطار میں اسے مدعو کیا تھا اور اس پر یوں فدا ہو رہے تھے جیسے مسلمانوں کو ان کا مسیحا مل گیا ہے؛ ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی بھی اَیرا غیرا نتھو خیرا دو چار جملے ہماری حمایت کے کیا بول دیتا ہے؟ہم اس پر سو جان فدا ہو جاتے ہیں؛نہ ہم اس کے ماضی کو کرید کر دیکھتے ہیں کہ وہ کس نظریہ کے سانچہ میں ڈھل کر آیا ہے؟ اور نہ اس کے خیرخواہانہ جملے کے پیچھے چھپے سیاسی چال کو سمجھتے ہیں؟ یہی ہماری کمزوری ہے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ ہمیں الو بناتے رہتے ہیں اور ہم بنتے رہتے ہیں؛ ہمیں ہوش اس وقت آتا ہے، جب وہ ہم سے فائدہ اٹھا کر چلتا بنتا ہے اور ہم وہیں کے وہیں مارے حیرت کے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں ۔

پرشانت کشور اسی سیاسی چالباز ٹولے کا ایک فرد ہے،اس کا ماضی ٹٹولئے تو اس کی اصلیت آشکارا ہو جائے گی کہ یہ کس کے لیے کام کر رہا ہے؟ یہی وہ شخص ہے جس نے ٢٠١٤ء میں بی جے پی کو مرکز میں برسرِ اقتدار لانے میں بڑا رول نبھایا تھا اور انتخابی حکمت عملی تیار کی تھی؛ یہ آج بھی درپردہ بی جے پی کے لئے ہی کام کر رہا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے؛ کئی غیر جانبدار سیاسی مبصرین نے اس بات کو کہا ہے اور اس کا مشاہدہ بھی حالیہ اختتام پذیر لوک سبھا انتخاب میں ہوا کہ اس نے بی جے پی کے حق میں ووٹ پولرائز کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کہا اور کیا؟اس کے باوجود مسلمانوں کا اس کے تئیں اتاؤلہ پن سیاسی شعور کے فقدان کی دلیل ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ مسلمان مسلم قیادت کے نام پر اس کی حمایت کر رہے ہیں اور اگر یہی آواز کوئی مسلم قائد اٹھاتا ہے تو اسے بی جے پی کا ایجنٹ کہہ دیتے ہیں، کتنا دوغلہ پن ہے؟

آئندہ چند ماہ میں بہار میں اسمبلی انتخاب ہے، بظاہر مقابلہ انڈیا الائنس بنام این ڈی ہے مگر پس پردہ کے کھیل پر نظر کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مقابلہ سہ رخی ہے؛ بی جے پی انڈیا الائنس کے ساتھ جدیو کو بھی بیک فٹ پر ڈھکیلنا چاہتی ہے اور جدیو کے سایہ سے چھٹکارا چاہتی ہے تاکہ سی ایم کی کرسی تک رسائی ہو سکے لیکن خود جدیو سے الگ ہو کر اپنی سیاسی زمین کمزور کرنا نہیں چاہتی ہے بلکہ اس کے لئے کسی ایسے تیسرے فرنٹ کو کھڑا کرنا چاہتی ہے، جو راجد اور جدیو کے کور ووٹ میں سیندھ لگا کر اس کے لئے سی ایم کی کرسی کی راہ ہموار کردے اور فی الحال اس کے لئے پرشانت کشور سے بہتر کوئی متبادل نہیں ہے؛ ادھر جدیو بھی اس کو سمجھ رہی ہے اور وہ بھی چاہتی ہے کہ اپنی سیٹ بڑھائے تاکہ مضبوط پوزیشن پر قائم رہے اور بی جے پی سی ایم کی کرسی کا دعویٰ نہ ٹھوک سکے، اس طرح پردہ کے پیچھے کا کھیل دو رخی کے بجائے سہ رخی ہو گیا ہے ۔

اس شطرنجی چال کے بیچ مسلم ووٹ دو خیموں میں بٹا ہوا ہے، سیکولرازم کی بنیاد پر پچاس سے ساٹھ فیصد ووٹ راجد کی طرف ہے اور ترقی و روزگار کے نام پر تیس سے چالیس فیصد ووٹ جدیو کی طرف ہے، اس کے علاوہ دونوں کا اپنا اپنا کور ووٹ ہے؛ مسلم ووٹر اس وقت دونوں سے ناراض ہے، راجد سے اس لئے کہ اس نے لوک سبھا انتخاب میں مسلمانوں کو نظر انداز کیا، خاطر خواہ نمائندگی نہیں دی، اور جدیو سے ناراضگی کی وجہ مرکز میں بی جے پی کی حمایت ہے؛ پرشانت کشور اس کو بھلی بھانتی جان رہے ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھا کر اپنی سیاسی روٹی سیک رہے ہیں، اگر پی کے مسلم ووٹ اور راجد و جدیو کے ووٹ میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کا سیدھا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوگا ۔

اس لئے بہار کے مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے، کسی بھی ایسے شخص سے ہوشیار رہنا چاہیے جو مسلم ووٹ بکھیر کر مسلمانوں کو بے حیثیت بنانے کے چکر میں ہے اور ایسے ووٹ کے سوداگروں، جملہ بازوں اور اوچھی سیاست کرنے والوں سے متنبہ رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہم سبھوں  کو  عقل سلیم اور فہم سلیم عطاء فرمائے ۔

٢٩ محرم الحرام ١٤٤٦ھ بروز پیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے