بسلسلہ سیرت سیریز (1)
موجودہ حالات میں سیرت النبی ﷺ کی عملی تطبیق:اخلاق وکردارکےآئینےمیں
عبدالمجید اسحاق قاسمی
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی ہدایت کے لیے انبیاء کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کامل انسان اور اخلاق کا بہترین نمونہ بنا کر بھیجا۔
انسانی تاریخ میں جب بھی اصلاح و تربیت کا سوال پیدا ہوتا ہے، نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ ہمیشہ روشن اور عملی مثال کے طور پر سامنے آتی ہے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ نہ صرف ایک کامل نمونہ ہے بلکہ ہر دور کے لیے عملی رہنمائی کا سرچشمہ بھی ہے۔ موجودہ حالات میں سیرت النبی ﷺ کا عملی تطبیق خاص طور پر اخلاق و کردار کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ آج کے دور میں دنیا کو جن بحرانوں کا سب سے زیادہ سامنا ہے، ان کی بنیادی وجہ اخلاقی زوال ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: "اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر ہیں۔” (سورۃ القلم: 4)
اخلاق اسلام کا ایک عظیم ستون ہے جس پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کے بنیادی مقصد کو یوں بیان فرمایا: "میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں”
(مسند احمد)۔
اس پرفتن دور میں، جہاں افراد اور معاشرتی نظام میں اختلافات اور فساد کا سامنا ہے، سیرت النبی ﷺ کے مطابق اچھےاخلاق و کردار کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔آپ ﷺ کی سیرت کا ہر پہلو اخلاق کی بلندی کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اپنے ساتھیوں کے ساتھ بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
ذیل میں چند اہم نکات ہیں؛ جن کے ذریعے ہم موجودہ حالات میں آپ ﷺ کے اخلاق و کردار کا عملی اطلاق کر سکتے ہیں:
حسن اخلاق کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:
اخلاق حسنہ کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے متعدد مقامات پر اس کی عظمت کو واضح کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "مؤمن کے ترازو میں قیامت کے دن حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہوگی۔”(ترمذی)
یہ حدیث اخلاق حسنہ کی عظمت کو واضح کرتی ہے کہ قیامت کے دن انسان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا، اور اس دن حسن اخلاق سب سے وزنی عمل ہوگا جو انسان کو اللہ کے قریب لے جائے گا۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے حسن اخلاق کو اعلیٰ ترین عبادات کے برابر قرار دیا: "بیشک مؤمن اپنے حسن اخلاق کے ذریعے روزے دار اور شب بیدار کے درجے کو پالیتا ہے۔” (ابو داؤد)
یہاں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نفل عبادات کے ساتھ ساتھ اچھا اخلاق اختیار کرنا بھی ایک اعلیٰ عبادت ہے، جس سے انسان اللہ کے قرب کو پا سکتا ہے۔
ایمان کی تکمیل حسن اخلاق کے بغیر ممکن نہیں نبی کریم ﷺ نے حسن اخلاق کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔” (ابو داؤد،)
اس حدیث میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لیے حسن اخلاق ضروری ہے۔ ایمان صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ اچھے اخلاق کے ذریعے ہوتا ہے۔
جنت میں قرب الٰہی کا ذریعہ: نبی کریم ﷺ نے حسن اخلاق کو جنت میں اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے جو شخص بہترین اخلاق والا ہوگا وہ قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔”(ترمذی)
یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حسن اخلاق صرف دنیا میں کامیابی کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت میں بھی نبی کریم ﷺ کی قربت حاصل کرنے کا سبب ہے، جو ہر مؤمن کی خواہش ہے۔
حسن اخلاق پر جنت کی ضمانت: حسن اخلاق کا ایک اور عظیم اجر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جنت میں ایک اعلیٰ مقام کی ضمانت دی ہے اس شخص کے لیے جو اخلاق حسنہ کو اپنائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں اس شخص کے لیے جنت کے اعلیٰ مقام میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جس کا اخلاق اچھاہو۔” (ابو داؤد)
یہ حدیث ہمیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اچھے اخلاق کے ذریعے انسان نہ صرف دنیا میں عزت حاصل کرتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اسے جنت کے بلند درجات عطا کیے جاتے ہیں۔
برے اخلاق کی مذمت: اسلام نے جہاں حسن اخلاق کی فضیلت کو بیان کیا، وہیں برے اخلاق کی مذمت بھی کی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ” (الھمزہ: 1) یعنی ”اس کے لیے خرابی ہے جو لوگوں کے منہ پر عیب نکالے، پیٹھ پیچھے برائی کرے“۔
یہ آیت ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ ہے جو دوسروں کی برائیاں بیان کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مؤمن نہ تو طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گو، اور نہ بد زبان ہوتا ہے۔” (ترمذی)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان کو فحش گوئی اور بد زبانی سے بچائے؛ کیونکہ برے اخلاق ایمان کو کمزور کرتے ہیں۔
اخلاق سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے کئی روشن واقعات ملتے ہیں، جن میں آپ ﷺ کا حسنِ اخلاق نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یہاں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کی ایک بہترین مثال ہے:
رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں ابتدائی دنوں میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے، لیکن قریش کے سرداروں نے اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور آپ ﷺ کو اور آپ کے صحابہ کو شدید اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں آپ ﷺ نے طائف جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے۔
جب آپ ﷺ طائف پہنچے اور وہاں کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دی تو نہ صرف انہوں نے دعوت کو رد کیا بلکہ طائف کے عوام کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا، جنہوں نے آپ ﷺ کو پتھر مار مار کر شدید زخمی کر دیا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے جسم سے خون بہنے لگا اور آپ کے جوتے خون سے بھر گئے۔
اس حالت میں بھی آپ ﷺ نے صبر کا مظاہرہ کیا اور جب آپ ﷺ طائف سے باہر ایک باغ میں بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور عرض کیا:
"اے محمد ﷺ! اگر آپ چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہلاک کر دے گا، جو آپ کو اذیت پہنچا رہے ہیں۔”
لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے عظیم اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"نہیں، میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے” (صحیح بخاری)۔
یہ واقعہ نبی کریم ﷺ کے حسنِ اخلاق اور صبر و تحمل کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آپ ﷺ نے بدلے کی بجائے معاف کرنے اور رحم کرنے کا راستہ اپنایا، اور یہی اخلاقی رویہ لوگوں کے دلوں کو بدلنے کا سبب بنا۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہر حال میں صبر و تحمل، معافی اور رحم کا مظاہرہ کرنا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ کا یہ اخلاقی رویہ ہمارے لیے ایک مثالی نمونہ ہے جسے ہمیں اپنی زندگیوں میں اپنانا چاہیے۔
(عملی تدابیر)حسن اخلاق کو اپنانے کے طریقے۔اخلاق حسنہ کو اپنانا ایک مسلسل عمل ہے جو تربیت، ارادہ اور دعا کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح اچھے اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
1. عملی تربیت اور مسلسل مشق:
اخلاق سیکھنے کے لیے عملی تربیت اور مسلسل مشق ضروری ہے۔ جیسے علم سیکھنے کے لیے استاد اور کتاب کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی اچھے اخلاق کو اپنانے کے لیے عملی تجربات اور مستقل کوشش کی ضرورت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اچھے اخلاق کو اپنانے کے لیے انسان کو خود کو سنوارنے اور اپنی عادات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
2. اچھے ماحول میں رہنا:
انسانی زندگی پر ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے۔ نیک لوگوں کی صحبت انسان کو اچھے اخلاق کی طرف راغب کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اچھے دوست کی مثال عطر فروش کی طرح ہے، جو تمہیں خوشبو دیتا ہے” (بخاری)۔
اسی طرح اگر انسان برے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو اس پر ان کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
3. دعا اہتمام:
نبی کریم ﷺ کی سنت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حسن اخلاق کی دولت اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعے مانگنی چاہیے۔ آپ ﷺ اکثر دعا کیا کرتے تھے:
"اے اللہ! مجھے بہترین اخلاق کی ہدایت دے، کیونکہ ان کی ہدایت دینے والا تو ہی ہے” (مسند احمد)۔
دعا کے ذریعے انسان اپنے اندر تبدیلی لا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنے اخلاق کو سنوار سکتا ہے۔
اسلام میں حسن اخلاق کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کا تعلق ایمان کی تکمیل، آخرت کی کامیابی اور نبی کریم ﷺ کی قربت سے جڑا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں اخلاق حسنہ کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں، اور ہمیں ان پر عمل کرنے کی تعلیم دی۔ آج کے دور میں جہاں اخلاقی زوال عام ہے، ہمیں آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے اپنے اخلاق کو بہتر بنانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حسن اخلاق کی دولت عطا فرمائے اور برے اخلاق سے محفوظ رکھے۔ آمین۔