تحفظ اوقاف کانفرنس: حقوق کی جدوجھد کانیا باب
عبدالمجید اسحاق قاسمی
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار
پٹنہ کی سرزمین پر 15 ستمبر 2024 کو منعقد ہونے والی تحفظ اوقاف کانفرنس نے ملت اسلامیہ کے لیے ایک نیا امید کا چراغ روشن کیا۔ اس وقت جب پورے ملک میں خوف اور دہشت کا ماحول ہے اور مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بلند کرنا مشکل ہو رہا ہے، بہار کی اس سرزمین نے ایک بار پھر تاریخی روایت کو زندہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں پہل کی۔ تحفظ اوقاف کانفرنس نے پورے ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیا۔
ملک کے مختلف ریاستوں سے علماء، وکلاء، دانشور اور سماجی و سیاسی رہنما پٹنہ کی اس کانفرنس میں جمع ہوئے، تاکہ وقف جائیدادوں کی حفاظت اور حکومتی چالوں کے خلاف یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے۔ اس کانفرنس کی اہمیت اس وقت اور بڑھ گئی جب یہ بات سامنے آئی کہ مرکزی حکومت وقف ایکٹ 1995 میں ترامیم کر کے وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ کانفرنس مسلمانوں کو انصاف دلانے میں کامیاب ہو پائے گی یا نہیں؟
یہ سچ ہے کہ موجودہ سیاسی و سماجی ماحول میں مسلمانوں کو دبانے اور ان کے حقوق غصب کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف منظم طریقے سے ماحول بنایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے بھی آواز اٹھانے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے میں پٹنہ کی یہ کانفرنس نہایت جرات مندانہ قدم ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، بہار نے سوسالہ تاریخ دہراتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اس کانفرنس کا انعقاد کیا، جو یقیناً پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔
وقف جائیدادیں مسلمانوں کے لیے ایک امانت ہیں، جو صدقہ جاریہ کی صورت میں نسل در نسل فائدہ پہنچاتی ہیں۔ ان جائیدادوں کی حفاظت مسلمانوں کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے وقف جائیدادوں کو مختلف طریقوں سے ہتھیانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جن میں وقف ایکٹ 1995 میں ترامیم سب سے خطرناک قدم ہے۔ اس کانفرنس میں واضح طور پر کہا گیا کہ یہ ترامیم کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں اور ملت اسلامیہ ان کے خلاف ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔
کانفرنس کے انعقاد کے بعد سوال یہ ہے کہ آیا یہ مسلمانوں کو انصاف دلانے میں کامیاب ہو پائے گی یا نہیں۔ اس کانفرنس نے یقیناً حکومت کو ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے متحد ہے اور کسی بھی قسم کی ناانصافی کو برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن اس کا عملی نتیجہ اس بات پر منحصر ہے کہ اس تحریک کو کس حد تک آگے بڑھایا جاتا ہے۔
کانفرنس میں دی جانے والی تجاویز اور مطالبات نہایت اہم ہیں، جن میں مرکزی وقف کونسل کی فوری تشکیل، وقف جائیدادوں کا شفاف سروے، غیر قانونی قبضے ختم کرانے کے لیے قانون سازی، اور مساجد کے تحفظ کے مطالبات شامل ہیں۔ ان مطالبات کو اگر عملی شکل دی جاتی ہے تو یقیناً مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں یہ کانفرنس سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف ایک کانفرنس یا میٹنگ سے مکمل انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کو مضبوطی سے جاری رکھے اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرے۔ اس کانفرنس نے جو جذبہ پیدا کیا ہے، اسے قائم رکھنا اور مزید تقویت دینا ضروری ہے۔ وقف جائیدادوں کی حفاظت صرف حکومت سے مطالبات کرنے سے نہیں ہوگی بلکہ ملت کے افراد کو خود بھی متحرک ہونا ہوگا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس کانفرنس کے مطالبات اور پیغام کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ وقف جائیدادوں کی پامالی مسلمانوں کے دینی و مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگی۔ اگر حکومت وقف جائیدادوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھاتی ہے اور مسلمانوں کے خدشات کو دور کرتی ہے تو یہ کانفرنس ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
تحفظ اوقاف کانفرنس کا انعقاد ایک جرات مندانہ اور امید افزا قدم ہے، جس نے پورے ملک کے مسلمانوں کو یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔ موجودہ حالات میں جب مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس کانفرنس نے نہ صرف حکومت کو خبردار کیا ہے بلکہ ملت اسلامیہ کو بھی ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ اب یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کو آگے بڑھائیں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
یہ کانفرنس اس بات کا واضح اعلان ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے حقوق پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گی اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس مضبوط اور دوٹوک پیغام کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے۔