اوقاف ترمیمی بل اور دہلی کی شاہی عیدگاہ کا تنازعہ

اوقاف ترمیمی بل اور دہلی کی شاہی عیدگاہ کا تنازعہ: ایک سنگین صورتِ حال

عبدالمجید اسحاق قاسمی
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار

اوقاف کی جائیدادیں ہمیشہ سے مسلمانوں کے لئے ایک حساس مسئلہ رہی ہیں، جنہیں اسلامی معاشرتی فلاح و بہبود کے لئے وقف کیا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں اوقاف کی جائیدادوں کے تحفظ اور ان کے صحیح استعمال کے معاملے میں سنگین مسائل نے جنم لیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال دہلی کی شاہی عیدگاہ کا تنازعہ ہے، جس نے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے اور اوقاف ترمیمی بل کی مخالفت کرنے والوں کے خدشات کو درست ثابت کیا ہے۔ اس تنازعے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موجودہ اوقاف قوانین اور ان کی ترامیم میں موجود خامیوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے اور وقف کی املاک کو محفوظ رکھا جا سکے۔

دہلی کی شاہی عیدگاہ، جو کہ ایک تاریخی اور مذہبی مقام ہے، حالیہ دنوں میں ایک اہم تنازعہ کا شکار ہوگئی جب دہلی وقف بورڈ نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ متنازعہ اراضی وقف کی نہیں ہے بلکہ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (DDA) کی ملکیت ہے۔ اس بیان نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا، کیونکہ یہ عیدگاہ صدیوں سے ایک مذہبی مقام کے طور پر جانی جاتی رہی ہے اور اسے وقف کی ملکیت سمجھا جاتا رہا ہے۔

وقف بورڈ کا یہ مؤقف اس وقت سامنے آیا جب عدالت نے اس معاملے میں ان سے کوئی جواب طلب نہیں کیا تھا۔ اس صورتحال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے: کیا وقف بورڈ وقف املاک کے تحفظ کے سلسلے میں سنجیدہ ہے؟ کیا اس مؤقف کی تبدیلی کسی دباؤ یا سیاسی مصلحت کی وجہ سے ہوئی ہے؟ دہلی وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر اشونی کمار، جو کہ ایک غیر مسلم ہیں، پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ وقف کی املاک کو دیگر اداروں یا افراد کو منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اشونی کمار اس وقت دہلی کارپوریشن میں ایڈیشنل کمشنر کے عہدے پر بھی فائز ہیں اور ان پر وقف کی جائیدادوں کو غیر قانونی طریقوں سے منتقل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

موجودہ اوقاف ترمیمی بل کے تحت کسی بھی غیر مسلم کو وقف بورڈ کا رکن بنایا جا سکتا ہے، جو کہ مسلمانوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ وقف کی جائیدادیں اسلامی مقاصد کے لئے مختص ہوتی ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور مذہبی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ لیکن جب غیر مسلم افراد کو وقف بورڈ میں شامل کیا جائے گا تو اس کے نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔

وقف کی جائیدادوں پر غیر مسلموں کی مداخلت سے ان جائیدادوں کا غلط استعمال اور غیر قانونی قبضے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ دہلی کی شاہی عیدگاہ کے معاملے میں بھی یہی دیکھنے کو ملا کہ وقف بورڈ کے ایڈمنسٹریٹر کے متنازعہ بیان کے بعد اس زمین پر قبضے اور غیر قانونی تعمیرات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اس بل کا مقصد وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے یا پھر وقف کی جائیدادوں کو کمزور کرنا اور ان کی قانونی حیثیت کو ختم کرنا ہے؟۔

ہمارے اکابر نے اوقاف ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے شروع سے ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ اس قانون کے نفاذ سے وقف املاک کی حفاظت میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ ان کا موقف تھا کہ وقف کے معاملات میں غیر مسلموں کی شمولیت سے وقف کی جائیدادوں کے تحفظ اور ان کے صحیح استعمال میں مشکلات پیش آئیں گی۔ دہلی کی شاہی عیدگاہ کا حالیہ واقعہ ان خدشات کو درست ثابت کرتا ہے۔

اکابرین کا کہنا تھا کہ وقف کی جائیدادیں مسلمانوں کی ملکیت ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ وقف بورڈ میں ایسے افراد شامل ہوں جو وقف کی اہمیت اور اس کے مقاصد کو سمجھتے ہوں۔ موجودہ ترمیمی بل میں غیر مسلموں کی شمولیت سے وقف کے اصولوں اور مقاصد پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ دہلی کی شاہی عیدگاہ جیسے تنازعات کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

شاہی عیدگاہ دہلی کے معاملے میں دہلی وقف بورڈ کے متنازعہ موقف نے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے بلکہ اس سے وقف املاک کے تحفظ پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔ اگر اس طرح کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ان کا مناسب حل نہ نکالا گیا، تو مستقبل میں وقف املاک کے غیر قانونی قبضے اور ان کے غلط استعمال کے مزید واقعات سامنے آ سکتے ہیں۔

اس تنازعے نے مسلمانوں کے اندر اس بات کا شعور بیدار کیا ہے کہ وقف املاک کی حفاظت کے لئے ہمیں اپنی قیادت اور تنظیموں کے ساتھ مل کر مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وقف بورڈ میں ایسے افراد کو شامل کیا جائے جو وقف املاک کے مقاصد اور ان کے تحفظ کے اصولوں کو سمجھتے ہوں، تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

آنے والے وقت میں ہمیں اپنے اوقاف کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔ اس ضمن میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ اس بل کی مخالفت کے لئے قانونی اور آئینی ذرائع کا استعمال کیا جائے اور حکومت کو اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنی قیادت کی رہنمائی میں اس مسئلے کے حل کے لئے جدوجہد کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ وقف بورڈ میں ایسے افراد کو شامل کیا جائے جو وقف املاک کے مقاصد اور ان کے تحفظ کے اصولوں کو سمجھتے ہوں، تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ وقف کی جائیدادوں کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کریں اور ان جائیدادوں کے تحفظ کے لئے اجتماعی کوششیں کریں۔

دہلی کی شاہی عیدگاہ کا معاملہ ہمارے لئے ایک تنبیہ ہے کہ ہمیں اپنے مذہبی مقامات اور اوقاف کی املاک کے تحفظ کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ موجودہ اوقاف ترمیمی بل جیسے قوانین ہمارے مذہبی حقوق اور شناخت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس کے خلاف منظم کوششیں نہیں کیں، تو ہمارے اوقاف اور مذہبی مقامات کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

ہمیں اپنی قیادت اور عوام کو اس مسئلے سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ، قانونی اور آئینی ذرائع سے اس بل کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی، تاکہ ہمارے اوقاف کی املاک محفوظ رہیں اور ان کے مقاصد پورے ہو سکیں۔ ہمیں اپنے اکابرین کی رہنمائی میں اس مسئلے کے حل کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا، تاکہ ہمارے اوقاف کی املاک کو کسی بھی قسم کے غلط استعمال سے بچایا جا سکے۔

شاہی عیدگاہ کے تنازعے نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمارے اوقاف کی حفاظت کے لئے ہمیں متحد ہو کر مضبوط اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وقف بورڈ اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس ترمیمی بل پر نظر ثانی کرے اور ایسے قوانین متعارف کرائے جن سے وقف کی املاک کو محفوظ بنایا جا سکے۔

اس وقت ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی قیادت، عوام اور تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک مؤثر حکمت عملی بنائیں، تاکہ ہم اپنے مذہبی ورثے اور اوقاف کی املاک کو ہر قسم کے خطرے سے بچا سکیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں وقف کی جائیدادوں کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنی ہوگی اور ان جائیدادوں کے تحفظ کے لئے اجتماعی کوششیں کرنی ہوں گی۔

دہلی کی شاہی عیدگاہ کا تنازعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمارے اوقاف اور مذہبی مقامات کی حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ نہ صرف ہماری مذہبی اور ثقافتی وراثت کا حصہ ہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی مضبوطی اور ہماری شناخت کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں۔ وقف املاک کا صحیح استعمال اور ان کا تحفظ یقینی بنانا نہایت ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی اصل مقاصد یعنی تعلیم، فلاح و بہبود، اور مذہبی ترقی کے لیے استعمال ہو سکیں۔

ہمارے اوقاف کی بقاء اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر ان معاملات پر گہری نظر رکھیں اور جہاں بھی کوئی خطرہ محسوس ہو، وہاں بھرپور آواز بلند کریں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وقف کی املاک ہماری اجتماعی ملکیت ہیں، اور ان کا تحفظ ہمارے ایمان اور ہماری روایات کی حفاظت ہے۔ اس کے لیے ہمیں قانونی اور آئینی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے، متحد ہو کر ایک مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا۔

عوام کو بھی اس بات کی آگاہی ہونی چاہیے کہ وقف املاک صرف ایک ادارے یا چند افراد کی ذمہ داری نہیں، بلکہ یہ پوری ملت کی امانت ہیں۔ اس امانت کو سنبھالنے کے لیے ہمیں اپنے دینی اور سماجی رہنماؤں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، اور اپنے اوقاف کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کریں اور اپنے اوقاف کی حفاظت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اگر ہم نے آج اپنے اوقاف کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور مضبوط اوقاف کا نظام چھوڑ کر جائیں، تاکہ وہ بھی اپنے دینی اور مذہبی مقاصد کو پورا کر سکیں اور اسلام کی ترقی اور فلاح و بہبود میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

مجموعی طور پر، ہمارے اوقاف ہماری ذمہ داری ہیں۔ ہمیں ان کی حفاظت اور ترقی کے لیے یکجا ہو کر کام کرنا ہوگا، اور اپنے مذہبی مقامات اور جائیدادوں کو ہر قسم کے خطرے سے بچانا ہوگا۔ یہی ہماری ذمہ داری ہے، اور اسی میں ہمارے مذہبی، سماجی اور معاشرتی مستقبل کی بقاء ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے