✍️ مفتی خالد انور پورنوی المظاہری
ہاں!وہ ڈاکٹر صاحب ہیں،ایم،بی،بی ایس کرچکےہیں،اس وقت پٹنہ کے بڑے اسپتال میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں،نام بھی مسلمان،باپ بھی مسلمان،گھرانہ بھی مسلمان،شکل وشباہت سے اب وہ کوئی مولوی صاحب لگتے ہیں،لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ وہ اندرسے کھوکھلاہوچکے ہیں،جسم میں جان باقی ضرور ہے،لیکن روحِ ایمانی سے وہ خالی ہوچکے ہیں،یعنی ایمان کو چھوڑکرارتداد کی راہ کو اپنا لیا ہے ،اس لئے کہ شکیل بن حنیف خان(دربھنگوی)کو وہ عیسی مسیح،اور مہدی مان چکے ہیں،بہت دور ممبئی کا سفر کرکے اس کے ہاتھ پر وہ بیعت بھی کرچکے ہے، اناللہ واناالیہ راجعون۔یہ واقعہ فرضی نہیں ہے،چنددنوں پہلے کی بات ہے،ہمارے ایک رفیق کافون آیا کہ: پٹنہ میں مقیم ایک ماسٹرصاحب ہیں،ان سے بات کرلیجئے،ان کابیٹا شکیلی ہوگیاہے،(نعوذ باللہ)، ان کا اصرارتھاکہ میں ضرور بات کرلوں،حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بات کی،تورونگٹے کھڑے ہوگئے،کہنے لگا:حضرت! آپ کسی وقت یہاں تشریف لائیے،اورمیرے بیٹاکو بچالیجئے،ان کی کڑھن،درد،اور بے چینی قابل دیدتھی،اس لئے کہ کسی بھی مردِمومن کے لئے ایمان سب سے بڑی دولت ہے،اس کی اہمیت،عظمت،فضیلت صرف اسی لئے ہے کہ اس کے پاس ایمان کی دولت ہے،اور یہاں باپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہاہے کہ اس کے بیٹےکے دل ودماغ سے ایمان نکل رہاہے،وہ باپ جس نے اپنی پوری زندگی اس پر نچھاور کرد ی تھی ، نہ جانے کتنے ارمان سجائے ہوں گے،آج ان کی آنکھوں کے سامنے ان کےا رمانوں کا خون ہورہا ہے ،باپ منتیں کررہا ہے ،درخواست کررہاہے،لیکن بیٹا ہے جو ماننے کے لئے تیارنہیں ہے،ہم سے کہنے لگے: آپ کل آجائیں،ہم نے وعدہ بھی کرلیا،اور دوسرے دن وعدہ کے مطابق وہاں پہونچ بھی گئے۔عصر کی نماز کے بعد ملاقات وبات چیت کی شروعات ہوئی،ہمارے ساتھ مجلس تحفظ ختم نبوت پٹنہ کے ناظم اعلی مفتی عبدالاحدقاسمی استاذ جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ بھی تھے،یہ ملاقات اور بات چیت تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی، شروع سے اخیر تک ہم لوگوں کی یہی کوشش رہی کہ ماحول پر امن رہے،ہمارا مقصد بحث ومباحثہ نہیں تھا، ہاں وہ شخص دوبارہ ایمان کی طرف لوٹ جائے، یہی مطمح نظر تھا،اور اسی لالچ کی وجہ سے ہم لوگ جامعہ مدنیہ سے وہاں تک پہونچے تھے،ان کے والدمحترم کی مکمل معاونت تھی،اس لئے بظاہر کسی خطرہ کا امکان بھی نہیں تھا، لیکن اس کے اسپتال میں جاکربات کرنا، ظاہرہے کہ ہمارے حق میں بہت بہتر بھی نہیں تھا، شروع سے ہی ہم نے ہر ممکن کوشش یہی کی کہ الجھنے کے بجائے،خوبصورتی سے اس کی غلط فہمیوں کاازالہ ہو، اور ان کے والدمحترم اپنے بیٹےکی محبت میں اس کے دامِ فریب میں نہ آجائیں ۔بات شروع کرتے ہی اس نے کہا: ”ہماری گفتگو صرف صحاحِ ستہ سے ہوگی،چونکہ صرف اسی میں صحیح احادیث ہیں“، وہ اس کے ذریعہ جو کچھ کہناچاہ رہے تھے ہم سمجھ گئے،مفتی عبدالاحدقاسمی صاحب نے یہاں روکا اور وجہ پوچھی کہ کیوں؟اس نے کہا: ”چونکہ یہ کتابیں Authentic ہیں،ان میں سندیں ہیں“،مفتی صاحب نے کہا: ”اس کا مطلب یہ ہے کہ سند اصل ہے،اب اگر سند کی بنیاد پر یہ کتابیں قابل اعتبار ہیں،تو پھر دیگر کتابوں کے لئے معیاربھی اسی کوبنایاجاناچاہئیے،اگراس میں ذکرکردہ احادیث کی سندیں صحیح ہوں، تو حدیث صحیح کہلائے گی،ورنہ €ضعیف،موضوع،اور ناقابل اعتبار،یہاں پرآکر وہ کچھ دیر تو ہمیں بھٹکانا چاہا،مگر کامیاب نہیں ہوا۔اسی طرح آج کل بہت سے احباب؛ گوگل کے ذریعہ اردو ترجموں کو پڑھ کریہی سمجھنے لگے ہیں کہ وہ دین کے بڑے محقق بن گئے ہیں،انہیں کسی عالم دین اور محدث ومفسر کی کوئی ضرورت نہیں ہے،یہاں تک کے بخاری شریف اورمسلم شریف کے علاوہ دیگر کسی بھی حدیث کی کتاب کو قابل اعتماد سمجھتے ہی نہیں ہیں،اس کی وجہ سے ان میں بہت سی غلط فہمیاں پیداہوجاتی ہیں،اور پھر ان مسئلوں سے باہرنکلناان کے لئے آسان نہیں ہوتا ہے۔ہاں! یہ صحیح ہے،اور اس پر ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیحین (بخاری،مسلم) سے زیادہ کوئی بھی معتمد ومعتبر کتاب روئے زمین پرموجودنہیں ہے، اس لئے ان دونوں کتابوں میں جو احادیث درج ہیں، ان سے انکارکی گنجائش نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان دونوں کتابوں کے علاوہ دیگراحادیث کی کتابوں میں جو صحیح احادیث درج ہیں وہ ناقابل اعتبارہیں، یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس کا ازالہ بہت ضروری ہے۔ چونکہ روایات صحیحہ بخاری اور مسلم میں منحصر نہیں ہیں۔ اس لئے کہ صحیح بخاری میں سات ہزار سے کچھ زائد احادیث ہیں جس کے بارے میں خود امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”میں نے ان کو چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے لیا ہے“، ابراہیم بن معقلؒ ان سے روایت کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ: ”میں نے اپنی کتاب ”صحیح بخاری“ میں صرف وہی احادیث ذکر کی ہیں جو صحیح ہوں اور بہت سی صحیح احادیث کو طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا ہے، اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے تیس لاکھ احادیث میں سے انتخاب کرکے چار ہزار کے لگ بھگ احادیث اپنی کتاب ”صحیح مسلم“ میں ذکر کی ہیں، لہذا صحیح حدیث کا مداریہ نہیں ہے کہ وہ صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود ہو،اصل بنیادیہ ہے کہ احادیث کی سندیں کس درجہ کی ہیں۔اس غلط فہمی کے ازالہ کے بعدپھر کہنے لگا کہ: عیسی اور مہدی دونوں ایک ہی ہیں،ہم نے کہا:دلیل پیش کیجئے، تو ابن ماجہ کی حدیث پیش کیا،جس میں ہے کہ ”مہدی نہیں ہیں،مگرعیسی“، ہم نے کہا: ”وہ ضعیف ہے،اور ضعیف احادیث کو اعتقاد کے باب میں پیش نہیں کیاجاسکتاہے“،کہنے لگا: ”ابن ماجہ نے کہا کہ وہ صحیح ہے“،مفتی عبدالاحد صاحب قاسمی نے کہا: ”دکھاؤ“،کہا کہ: ”ابن تیمیہ نے کہاہے“،ہم نے کہا: ”پہلی والی بات صحیح ہے،یابعد والی؟“،جب کچھ سمجھ نہیں آیاتو بولاکہ: قرآن نے بھی کہا ہے دونوں ایک ہی ہیں، ہم نے کہا: ”دکھائیے“، تو قرآن کی یہ آیت کھول کر دکھایا کہ ”یہ دیکھو، یہاں پر حضرت عیسیٰ کے بارے فی المھد کہا گیا ہےاوروہ آیت یہ ہے:اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًاۚ_ یعنی حضرت عیسیٰ ہی امام مہدی مہدی ہیں۔(نعوذباللہ)یہ سن کر ہم سمجھ گئے کہ یہ شخص کس معیارکاہے، یہاں پر ”المہد“ ہے،(جس کامعنی ”گود“ہے)، اور ان سے پوچھاگیاتھا المہدی(یاکے ساتھ)(جس کا معنی ہے ”ہدایت یافتہ“)، اس کے والد صاحب وہیں موجودتھے،بیٹاکی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ”تم ”مہدی“ اپنے سے لکھ کردکھاؤ“، اس نے غضب یہ کیاکہ ”محدی“(بڑی حاکے ساتھ) لکھ دیا، اس کے باپ نے کہا: ”تم کو تو یہ بھی لکھنانہیں آتاہے“،پھراس کے والدمحترم نے لکھ کردکھایا ”مہدی“ اس طرح ہوتاہے، اور قرآن میں صرف ”المہد“ ہے (بغیر یا کے) اور اس کا معنی بھی ”گود“ہے جس کا تمہارے دعوے سے کوئی لینا دینا نہیں،جب کہ تم سے پوچھایہ گیاکہ ایسی دلیل پیش کرو،جس سے یہ ثابت ہوکہ حضرت عیسیٰ اور مہدی دونوں ایک ہی ہیں۔وہ ڈاکٹر جب ہر طرف سے لاجواب ہوگیاتو کہنے لگاکہ: ”اچھاآپ ہی یہ ثابت کیجئے قرآن وحدیث سے کہ حضرت عیسی اور مہدی دونوں الگ الگ شخص ہیں“،ہم نے کہاکہ: ”حدیث میں حضرت عیسی کے بارے میں ابن مریم آیاہے،اورامام مہدی کے بارے میں آیاہے کہ وہ محمدبن عبداللہ ہیں، دوسری جگہ حدیث میں موجود ہے کہ آسمان سے جامع دمشق کے سفیدمنارہ پر حضرت عیسیٰ ابن مریم اتریں گے اور پھر وہاں سے نیچے اتارے جائیں گے، نماز کاوقت ہوگا،حضرت امام مہدی امامت کے لئے کھڑے ہوں گے،حضرت عیسیٰ کودیکھیں گے تو پیچھے ہٹیں گے، لیکن حضرت عیسیٰ کہیں گے کہ آپ ہی نمازپڑھائیں، کیااس سے یہ ثابت نہیں ہوتاہے کہ دونوں الگ الگ شخص ہیں۔“مگر وہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا،باربارکہہ رہاتھاکہ: آپ دکھائیں کہ کہیں یہ لکھاہوکہ وہ دونوں الگ الگ ہیں،تومیں کھڑا ہوا اور ان کےوالدسےپوچھاکہ: ”بتائیے آپ کے والد صاحب کانام کیاہے؟“پھر وہاں موجودمفتی صاحب سے پوچھاکہ: ”آپ کے والدصاحب کانام کیاہے؟“ دونوں نے اپنے والد کا نام بتایا، تو میں نے کہا کہ: ”جب دونوں کے والدصاحب الگ الگ ،دونوں کی ماں الگ الگ،تو دونوں ایک شخص ہوئے،یاالگ الگ؟“ میں نے کہا:”ایساکیسے ہوجائے گا کہ یہاں موجود دونوں ہی آپ کے والدصاحب ہوں گے،کیاان دونوں کو الگ الگ ہونے کے لئے اتناکافی نہیں ہے؟“ اب تو وہ تلملایااور کہنے لگاکہ: ”یہ لاجک نہیں چلے گی“۔یہ فتنوں کا دورہے،ہردن نئے فتنے جنم لے رہے ہیں،سب کے پیچھے کا مقصد ایک ہے اور وہ مسلم نوجوانوں کو ایمان سے ہٹاکرارتداد کی چوکھٹ پر لاکھڑاکرنا،قادیانیت،احمدیت،غامدیت،گوہرشاہی،اور یہ فتنہ،فتنہ شکیلیت کے دام فریب میں اگرعصری علوم کے فارغین جارہے ہیں،تو سوچنے کی بات ہے۔یہ واقعہ صرف آپ سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے میں نے بیان کردیاہے، ورنہ تو بڑی تعدادمیں اس طرح کے واقعات وحادثات پیش آرہے ہیں،اور بہارکی راجدھانی پٹنہ میں اس کی جڑیں بہت مضبوط ہوگئی ہیں، جس پر کام کرنے اور ربط باہمی کے جذبوں کو فروغ دے کرنوجوانوں کو دینی تعلیم سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔یادرکھئے! یہ دنیافانی ہے،اسے ایک دن فناہوجاناہے، اسے ہم قیامت کے دن سے تعبیر کرتے ہیں، قرآن کریم میں جابجااس کاذکرہے، لیکن اس کا وقوع کب ہوگا؟اس کا علم سوائے رب العالمین،احکم الحاکمین،جل جلالہ کے کسی کو نہیں ہے، ہاں مگرنبی کریم ﷺ نے وقوع قیامت سے پہلے کی کچھ نشانیاں بیان فرمائی ہیں،دجال کا خروج،آسمان سے حضرت عیسی ابن مریم کا نزول،اور حضرت محمدبن عبداللہ المہدی کا ظہوربھی انہی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ایک مومن کے لئے ان تمام احکامات پراجمالاوتفصیلاا یمان لاناضروری ہے،جن کا حکم آپ ﷺ نے اجمالا وتفصیلا دیاہے، یاکسی چیز کے بارے میں پیشیں گوئی دی ہے، اس پر یقین واعتماد کرنا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم آسمان سے اتریں گے ، لیکن امامت حضرت محمدبن عبداللہ المہدی کریں گے، پھر حضرت عیسی ابن مریم دجال کو قتل کریں گے۔ احادیث میں اس بات کی بھی مکمل وضاحت موجود ہے کہ حضرت عیسی ابن مریم اور حضرت محمدبن عبداللہ المہدی دونوں الگ الگ شخصیات ہیں، حضرت عیسی ابن مریم کا نزول آسمان سے ہوگا، اور حضرت مہدی (محمدبن عبداللہ)ماں کے پیٹ سےپیداہوں گے،اور وقت پر وہ لوگوں کے سامنے ظاہرہوں گے ۔مرزا غلام قادیانی کا عقیدہ تھاکہ وہ خود عیسی بھی ہے،اور مہدی بھی ہے،(نعوذباللہ)اپنی اس بات کو درست کرنے اور دنیاکو دھوکہ میں رکھنے کے لئے کہنے لگاکہ عیسی مسیح اور مہدی دونوں ایک ہی ہیں ، بالکل یہی دعویٰ دربھنگہ کا رہنے والاشکیل بن حنیف خان کابھی ہے،اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بھولے بھالے نوجوان شکیل بن حنیف خان کے دام فریب میں پھنستے جارہے ہیں۔اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ شکیل بن حنیف خان اور اس کے ماننے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے،وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں،اس لئے اس فتنہ سے خودبھی بچیے،اور اپنی اولادکو بھی اس سے بچائیے!