محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت امت بہت نازک دور سے گزر رہی ہے ، پوری ملت اسلامیہ پر دشمنوں کی طرف سے پیہم یلغار ہے ، عالم اسلام میں بھی انتشار ہے اور بر صغیر ہندو پاک میں بھی مسلمان آزمائشوں سے دو چار ہیں، مسلمانوں پر جو حملے ہیں یہ داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی، آج ایک طرف ہمارے اندر نسل وطن علاقائی عصبیتیں اور جغرافیائی حد بندیاں پیدا ہوگئی ہیں، اسی وجہ سے ہماری صفوں میں انتشار ہے، اور اس خیر امت کو دوسرے لوگوں نے لقمئہ تر سمجھ کر نگلنا شروع کردیا ہے ،کہیں بنیاد پرستی اور کہیں تششدد پسندی کے نام پر آپس میں اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے ،کہیں تجدد پسندی اور اباحیت کے نام پر ہماری صفوں میں سر پھٹول کرایا جارہا ہے ،کہیں جدید تہذیب کے نام پر ہماری وحدت کو تقسیم کیا جارہا ہے اور کہیں تعلیم کی ثنویت کی بنیاد پر ہمارے درمیان گہری خلیج پیدا کر دی گئی ہے ۔اس وقت ضرورت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں وحدت و اجتماعیت پیدا کریں، اپنے انتشار کو ختم کریں اور بحیثیت مسلمان کے ایک کلمہ کی بنیاد پر اپنی خلیج کو پاٹ ڈالیں، علاقائی حد بندیوں اور لسانی عصبیت سے پاک ہوکر اور فروعی و جزئی اختلاف کو ختم کرکے صرف کتاب و سنت کی بنیاد پر بنیان مرصوص کا ثبوت پیش کرکے باطل ازموں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط چٹان
بن جائیں، اسی اتحاد کی بدولت ہماری عظمت رفتہ واپس آسکتی ہے اور ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتے ہیں ۔ ہماری تمام عبادتیں بھی اسی صفت کو پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہیں اور تمام دینی ارکان اسی کے ترجمان و غماز ہیں ،یہ عبادتیں بھی ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
لیکن افسوس کہ جن کے ذمہ امت کی وحدت اور شیرازہ بندی کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، آج وہ لوگ خود بھی انتشار اور اختلاف و افتراق کے شکار ہیں، جو پیلٹ فارم ، انجمن اور بورڈ وجمعیت امت مسلمہ کی وحدت و اجتماعیت کے لیے تشکیل دی گئی تھی اور امت کی وحدت کے لیے منشور اور اعلامیہ جاری کرتی تھی، اسی کے افراد بھی باہم منتشر و متفرق ہیں ،جس کے بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔۔۔
اس وقت جب کے ہمارا ملک ہندوستان اپنی تاریخ کے نہایت سنگین دور سے گزر رہا ہے اور مخالف طاقتیں جو ملک کے جمہوری کردار اور ہمہ مذہبی سیکولر روایات پر یقین نہیں رکھتیں بام اقتدار پر پہنچ چکی ہیں اور وہ ایسی طاقت کے زیر اثر ہیں، جو کبھی اس ملک کے تئیں ہمدرد و بہی خواہ نہیں رہے ، ایسی حالت میں ہماری صفوں میں انتشار اور خصوصا مذہبی قیادت میں افتراق و انتشار اور رشہ کشی بہت غلط اور نامناسب بات ہے ۔
اس وقت ضرورت ہے کہ ذات برادری ،خاندان کی تقسیم سے اوپر اٹھ کر مسلک و مشرب کے تمام اختلافات سے بالا تر ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اتحاد و اتفاق ہی زندگی ہے اور انتشار و افتراق موت ہے ،لہذا اپنے مسلک اور مشرب کے اختلاف کو علمی دائرے تک ہی محدود رکھیں اور امت کی اجتماعیت کو متاثر نہ ہونے دیں ۔ نیز ہمارے عمل اور روئیے سے یہ ظاہر نہ ہوکہ ہمیں خدمت ،عمل اور کوشش سے زیادہ عہدے اور منصب کی فکر ہے اور اس کے حصول کے لیے ہم وہ بھی کرسکتے ہیں ،جو دوسرے دنیا دار لوگ کرتے ہیں ، اس سے بہت غلط میسیج اور پیغام جاتا ہے ۔
ہر گروہ اور جماعت میں فکر و نظر کا اختلاف موجود ہوتا ہے ،مسلمانوں میں بھی مسلک و مشرب کا اختلاف پایا جاتا ہے ،لیکن دین کی بنیادی باتوں پر امت کا اتفاق ہے ،اس وقت امت مسلمہ جس صورت حال سے دو چار ہے، وہ حددرجہ قابل توجہ اور لائق فکر ہے، اس وقت اگر مسلمانوں نے اپنی صفوں میں وحدت و اجتماعیت پیدا نہیں کی، تو خطرہ ہے کہ ملک دشمن، قوم دشمن اور فرقہ پرست طاقتیں اپنی سازش میں کامیاب ہو جائیں اور اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا جائے اور ملک کے دستوری ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو جائیں اس لیے تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ مشترکہ مفاد اور ملت کی اجتماعیت کے لیے متحد رہیں اور مسلک و مشرب کے اختلاف کے باوجود اپنی صفوں میں بکھراؤ نہ پیدا ہونے دیں نیز امت مسلمہ کی قیادت اور خدمت کے لیے جو تنظیمں اور جمعیتیں ہیں وہ بھی اختلاف و انتشار سے محفوظ رہیں اور اپنی طاقت و قوت،افادیت اور حیثیت میں کمی نہ ہونے دیں ، امید کہ ہم سب ان باتوں پر عمل کریں گے اور ملت کو مضبوط کرنے اور ملت کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی فکر کریں گے ۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
ورنہ