اردو ادب اور مولانا ابوالکلام آزادؒ
سالم ظفر
دولت پور جوکی ہاٹ ارریہ
_____________
میں گزشتہ رات تقریباً بارہ بجے سے بنام ایک کتاب امام الہند ابوالکلام آزادؒ ہندوستان میں ابن تیمیہ (ایک سیاسی مطالعہ) اپنے ہاتھ میں لئے پھر رہا ہوں موضوع کا انتحاب نہیں ہو پارہا ہے،اور اپنی ذہن میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کے پہلو کے بارے میں محو ہوں کہ کس پہلو پہ قلم کو حرکت دوں بحثیت امام الہند، یا وزیر تعلیم، یا بحثیت سیاستدان، یا خطیب،یا بحثیت صحافی، یا اردو ادیب،یا مفسر قرآن ، سمجھ میں نہیں آرہا ہے پھر فیصلہ کرنا پڑا کی مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت ہندوستان کی تاریخ میں ایک باب اور ایک عہد کی حیثیت رکھتی ہے،وہ جامع الکمال اور عدیم المثال ہیں۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی نظیر ہے کہ انھوں نے بحیثیت مقرر و محرر یکساں مقبولیت حاصل کی۔ وہ ملکی و ملی قائدانہ صلاحیت سے بھرپور تھے، تاریخی و تہذیبی شخصیت کے ساتھ انھوں نے مذہبی، ادبی اور سیاسی و صحافتی میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کے باعث انھوں نے ملک کے تعلیمی تصورات کو معیاری حسن عطا کیا۔ نیز اس کی اصلاحات کی کوششیں کیں، وہ ایک بڑے مفکر و مدبر تھے اور انھیں گہری سیاسی و سماجی اور تعلیمی بصیرت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی بیشتر شخصیات اور اعلیٰ قیادت ان سے متاثر تھی۔ ان میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل جیسی صف اول کی ہستیاں شامل ہیں۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر تھے اور کہا کہ میں نے اس طرح کے قائد کو اس پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔
مولانا آزادؒ نے اردو ادب میں ایک نیا فکری اور ادبی معیار قائم کیا۔ ان کی تحریریں ادب کے ساتھ ساتھ سیاست، مذہب اور فلسفہ کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے ادبی اور فکری کارنامے اردو زبان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ بنیادی طور پر ایک مذہب پرست اور بیدار ذہن شخص تھے،ان کی پیدائش 11 نومبر 1888 کو مکہ معظمہ میں ہوئی برصغیر کی ان نمایاں شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اردو ادب کو نئی جہتیں عطا کیں۔ وہ ایک مفسر قرآن، مفکر، سیاستدان، اور ایک عظیم ادیب تھے۔ ان کی تحریریں اردو ادب میں فکری گہرائی اور اسلوب کی بلندی کی مثال ہیں۔ مولانا آزادؒ نے اپنی صحافت، خطابت اور نثر کے ذریعے اردو ادب کو وسیع تر معنوی اور فکری جہات فراہم کیں،مولانا آزاد نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کئی اخبارات و جرائد کی ادارت سے کیا۔ ان کا مشہور رسالہ "الہلال” (1912ء) اردو صحافت کا ایک اہم سنگِ میل تھا۔ یہ رسالہ مسلمانوں کی بیداری اور سیاسی شعور اجاگر کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا،جب برطانوی حکومت کو رہا نہیں گیا ان کو پتہ لگاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی متحرک کرنے کی کوشش جاری ہے تو اس نے الہلال پر پابندی لگادی تو مولانا آزاد نے 1915ء میں البلاغ جاری کیا۔ یہ بھی الہلال کی طرح مسلمانوں کی بیداری اور آزادی کی تحریک کو تقویت دینے کے لیے شائع کیا گیاتھا۔
افسوس اور ماتم تو یہ ہے کہ آج صحافی کے معنی اور فرائض ہی بدل گئے اب صحافی کے لیے فن صحافت میں دستگاہ کافی وافی ہے لیکن ان لوگوں کے عہد میں صحافت بہمہ وجوہ انشاہ پردازی ہی کا ایک حصہ تھا ایک مدیر محض مدیر ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ مدیر بھی ہوتا تھا ادیب بھی، شاعر بھی، صحافی بھی، نقاد بھی ، مفسر بھی ، بعض صورتوں میں خطیب بھی چنانچہ ان عناصر خمسہ میں جو خوبیاں باکمال و اتم ہے ان لوگوں نے اخبار کو بحیثیت اخبار کے تو مغرب سے حاصل کیا لیکن ان کا سراپہ مزاج و تربیت یکسر مشرقی رہے ان کا بنیادی علم مشرقی تھا، اور یہ قریب قریب علم کی سبھی شاخوں سے آشنا تھے یہ وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ایک ثقافتی ہمہ گیری نظر آتی ہے جو آج کل کے مدیروں میں ان کی ہمہ دانی کے باوجود عنقاہے (ہندوستان میں ابن تیمیہؒ”)
مولانا ابو الکلام آزادؒکی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ علم و ادب کی روح وجسم کی طرح ایک دوسرے سے پیوست رکھتے تھے بقول رشید احمد صدیقی کے کہ وہ الفاظ کو الوہیت اور نبوت کا جامع پہناتے ہیں ان کا زور بیان اور زور استدلال اتنا مستحکم ہے کہ رئیس المغزلین مولانا حسرت موہانیؒ نے بھی اعتراف فرمایا:
جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزہ نہ رہا
الغرض امام الہند مولاناابو الکلام آَادؒ کا طرز نگارش بالخصوص ان کی استدلال کا پیراہن بظاہر مغلق ہے ، لیکن محض مغلق نہیں بلکہ اس میں ان کی مقصدیت چھپی ہوئی ہوتی ہے چونکہ وہ ایک مجتہد کی حیثیت سے ایک انسانی جماعت کو اس کی نیندوں سے جگانے کے در پے رہتے تھے اس لیے انہیں دعوت و تذکیر کا لہجہ اور خطابت و تبلیغ کا پہرایا دل و جان سے عزیز ہے جس قوم سے ان کا واسطہ رہا وہ اس کے دینی وجود کی لسانی عظمت کو پوری طرح سنبھالے ہوئے تھے اور وہی تمکنت ان کے اسلوب نگارش میں موجود ہے۔ جناب شورش کاشمیری لکھتے ہیں بنام امام الہند مولانا ابولکلام آزادؒ (ہندوستان میں ابن تیمیہ) کے اندر کہ میں نے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے استقامت وایثاراور جہد و استقلال کے میدانوں میں خوف غیر اللہ کو ٹھکرادینے کا سبق سیکھا ہے۔ ان کے اسلوب نگارش اور اعجاز بیان و تحریر سے خطابت وانشاء میں بیسیوں ادائیں سیکھی ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ مولانا آزادؒکے شجر علمی اور اردو لغت و ادب پر ان کی ید طولی اور بلند پایگی دنیا بھر میں مشهور و معروف ہے۔ حتی کہ اس شمع ادب سے اپنے چراغ روشن کرنے کے کم و بیش بھی ادیب و نثار خواہاں ہیں۔ اپنی عدیم النظیر نگارشات سے مولانا نے اردو کی جو گراں بہا اور غیر فانی خدمات انجام دی ہیں، اس سے کون انکار کر سکتاہے ، یہاں پی مولانا آزادؒ صاحب کے چند مشہور کتابیں پیش کئے دیتا ہوں وہ یہ ہے "ترجمان القرآن” غبار خاطر”آئینہ ابوالکلام آزاد”مجموعہ مقالات”آثار ابوالکلام آزاد "ایک نفسیاتی مطالعہ” آثار آزاد”انڈیا ونس فریڈم” مولانا ابوالکلام آزادؒ کا اردو ادب میں کردار ان کے اعلیٰ ادبی اسلوب، فکری گہرائی، اور قومی شعور کو اجاگر کرنے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی تحریریں اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں اور نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
اور اگر کوئی صاحب قلم آزاد صاحبؒ کو اپنا لے تو وہ شخص قلم وقرطا س کے میں میدان ایک کامیاب محرر بن سکتا ہے۔ بالآخر آپ دار فانی سے دار بقاء کی طرف 69 سال کی عمر میں 22 فروری، 1958ء کو وفات پا گئے حق تعالیٰ غریق رحمت کرے اور درجات کو بلند فرمائے آمین