*اردوزبان اور علامہ اقبال*
_______________________
محمد سالم ظفر
دولت پور جوکی ہاٹ ارریہ
9 نومبر علامہ اقبالؒ کا یومِ پیدائش ہے، جو 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ علامہ اقبالؒ ایک عظیم شاعر، فلسفی، اور مفکر تھے، جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو خوابِ خودی، آزادی، اور خودمختاری کا شعور دیا۔ علامہ اقبالؒ نے اردو اور فارسی شاعری میں ایسے افکار پیش کیے جو مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں ،علامہ اقبال اور اردو زبان میں علامہ محمد اقبالؒ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ اردو زبان کی ترقی اور ترویج میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ مزید آگے بڑھ کر یہ کہا جائے تو غلو نہیں ہوگا کہ علامہ اقبالؒ نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک انقلابی شخصیت تھے بلکہ ان کے افکار و خیالات نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری نے مسلمانوں کو اپنے مقام و مرتبے کا شعور دیا اور انہیں بیداری کی راہ دکھائی۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو اتحاد، خودی اور خود اعتمادی کا درس دیا۔ ان کا پیغام صرف شاعری تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے مسلمانوں کو عملی جدوجہد کی طرف مائل کیا، اقبالؒ کی شاعری میں ایک خاص جوش اور ولولہ پایا جاتا ہے جو قاری کے دل و دماغ کو جھنجوڑ دیتا ہے۔
علامہؒ نے اردو زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا بہترین ذریعہ بنایا اور اپنی شاعری کے ذریعے اردو زبان کو ایک نئی روح عطا کی۔ ان کے کلام نے اردو کو عالمی سطح پر ایک معتبر اور بلند مقام دیا علامہ اقبالؒ کی شاعری میں اردو زبان کے الفاظ و تراکیب کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کیا گیا ہے، انہوں نے اردو کو ایک ایسا ذریعہ بنایا جس کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں خودی، حریت، اور امت مسلمہ کی بیداری کے جذبات کو پروان چڑھایا جا سکے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے خیالات کو اس طرح بیان کیا کہ عام قاری بھی ان کے پیغام کو بآسانی سمجھ سکتاہے ۔
علامہ اقبالؒ کی شاعری اردو زبان میں فلسفیانہ گہرائی اور فکری بلندی کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں اردو ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ خاص طور پر ان کی نظمیں "شکوہ”، "جواب شکوہ”، اور "خضرِ راہ” اردو ادب میں نہایت مقبول ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
علامہ اقبالؒ نے اردو زبان کے فروغ کے لیے نہ صرف شاعری کی بلکہ اپنی نثر کے ذریعے بھی اردو کو تقویت دی۔ ان کی نثر میں فلسفہ، تاریخ، اور مذہب کے پیچیدہ موضوعات کو بھی آسان اور پراثر انداز میں پیش کیا۔
علامہ اقبالؒ کی شاعری نے اردو زبان کو ایک عالمی حیثیت دلائی اور اسے اسلامی تہذیب و ثقافت کا آئینہ بنا دیا۔
اردو زبان کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر ان کی محبت اور وابستگی کو واضح کرتا ہے:
جس قوم کو آتی نہیں اپنی زبان کی قدر
اس قوم کو نہیں رہتی کبھی اپنی پہچان۔
علامہ اقبالؒ کے افکار آج بھی اردو زبان کے فروغ اور بقا کے لیے مشعل راہ ہیں، یہ شعر علامہ اقبالؒ کے ان افکار کی عکاسی کرتا ہے جن میں انہوں نے قوموں کی ترقی و بقا کے لیے اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کو ضروری قرار دیا۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک زبان کسی بھی قوم کی شناخت اور تہذیب کا بنیادی ستون ہے، اگر کوئی قوم اپنی زبان کی اہمیت کو فراموش کر دے، تو وہ اپنی تاریخ، ثقافت، اور قومی تشخص کھو دیتی ہے۔
علامہ اقبالؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زبان صرف بات چیت کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ قوم کی فکری اور علمی ترقی کی بنیاد بھی ہے۔ جب قومیں اپنی زبان سے دور ہو جاتی ہیں، تو وہ دوسروں کی تہذیب اور خیالات کی غلام بن جاتی ہیں۔ اپنی زبان سے محبت کا مطلب اپنی تاریخ اور روایات کی حفاظت ہے، جو قوم کی بقا کے لیے لازمی ہے۔
علامہ اقبالؒ کے اس شعر کا پیغام ہے کہ ہر قوم کو اپنی زبان کی قدر کرنی چاہیے، کیونکہ زبان کے بغیر قومی شناخت مٹ جاتی ہے اور قومیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
بالآخر وہ آفتاب و ماہتاب ستارہ (علامہ محمد اقبالؒ) اس دار فانی کو چھوڑ کر 21 اپریل 1938ء کو دار بقا کی طرف کوچ کر گئے تدفین پاکستان کے لاہور میں عمل آئی ۔
مولیٰ غریق رحمت کرےو درجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطاء فرمائے آمین