الحاج غلام سرور: صحافت، ادب اور سیاست کا درخشندہ ستارہ
**عبد المجید اسحاق قاسمی**
امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار
دنیا کے افق پر بعض شخصیات ایسی چمکتی ہیں جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیات میں الحاج غلام سرور کا نام صحافت، ادب، سیاست اور خطابت کی دنیا میں ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتا ہے۔ ان کی زندگی انقلابی جدوجہد، ملت کے درد، اور انسانیت کے لیے قربانیوں کی عظیم داستان ہے۔
الحاج غلام سرور کی پیدائش 1926ء میں بہار کے مشہور ضلع بیگوسرائے میں ہوئی۔ ایک علمی اور سماجی شعور رکھنے والے ماحول میں پرورش پانے والے غلام سرور نے علم کی پیاس بجھانے کے لیے پٹنہ سائنس کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کیا۔ ان کی ذہانت اور علمی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ اردو ادب میں ایم اے کرنے کے دوران وہ گولڈ میڈلسٹ رہے۔ مشہور و معروف ادیب پروفیسر اختر اورینوی کے شاگردی نے ان کے علمی افق کو مزید وسیع کیا۔
غلام سرور کی ادبی زندگی کا آغاز اردو زبان و ادب میں تنقیدی مضامین سے ہوا۔ ان کے مضامین ملک کے ممتاز اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے اور قارئین میں خوب مقبول ہوئے۔ ان کی تحریریں گہرے مشاہدے، بے باک تجزیے اور انقلابی افکار کی عکاس تھیں۔
غلام سرور ایک باغی دانشور اور انقلابی انسان تھے۔ انہوں نے صحافت کو اپنے افکار کے اظہار اور ملت کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ 1951ء میں سہیل عظیم آبادی کے ادارت میں شائع ہونے والے اخبار "ساتھی” کو خرید کر انہوں نے اس کی ادارت سنبھالی۔ اگرچہ یہ اخبار کچھ عرصے بعد بند ہوگیا، لیکن غلام سرور نے ہمت نہ ہاری اور 1953ء میں اپنا ہفتہ وار اخبار "سنگم” جاری کیا، جو 1963ء میں ایک روزنامہ کی صورت اختیار کر گیا۔
روزنامہ "سنگم” غلام سرور کی انقلابی تحریروں اور بے خوف اداریوں کا عکاس تھا۔ یہ اخبار ملت کے مسائل کا حقیقی ترجمان بن گیا اور مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی، اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
1960ء کی دہائی میں غلام سرور نے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ وہ جے پرکاش نارائن کی "سمپورن کرانتی” تحریک سے وابستہ ہوئے اور بدعنوانی کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977ء میں وہ بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1990ء تک مختلف حیثیتوں میں عوام کی خدمت کرتے رہے۔
غلام سرور کی تصانیف ان کے علمی، ادبی، اور انقلابی خیالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں "پرکھ”، "مقالات سرور”، "جہاں ہم ہیں”، "پہلا وہ گھر خدا کا” اور "عوام کی عدالت میں” شامل ہیں۔
"پرکھ” ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جس کا مقدمہ مشہور نقاد پروفیسر آل احمد سرور نے لکھا۔
"جہاں ہم ہیں” اور "گوشے میں قفص کے” ان کی جیل ڈائریاں ہیں، جن میں انہوں نے اپنی اسیری کے تجربات قلم بند کیے۔
"پہلا وہ گھر خدا کا” ان کا حج سفرنامہ ہے، جو ادب اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے۔
غلام سرور کی زندگی ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ تھی۔ وہ ہمیشہ امت کے مسائل کو گہرائی سے سمجھتے اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کرتے تھے۔ ان کی تقاریر اور تحریریں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے، فکری جمود کو توڑنے، اور مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے تھیں۔
الحاج غلام سرور کی زندگی ایک عزم، استقلال، اور قربانی کی کہانی ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم صحافی تھے بلکہ ایک انقلابی مفکر، شعلہ بیاں خطیب، اور بے مثال سیاستدان بھی تھے۔ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اور ان کی زندگی آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔
"انسان مر جاتے ہیں، لیکن ان کے افکار اور کارنامے زندہ رہتے ہیں۔ غلام سرور کی انقلابی داستان ہمیشہ دلوں کو روشن کرتی رہے گی۔”