ایک ملک،ایک مذہب!

میری زندگی کا مقصد

ایک ملک،ایک مذہب!
فکرونظر13
خالدانورپورنوی،المظاہری
آج ہم سنتے ہیں : ‘ ‘ایک ملک،ایک مذہب’ ‘ یہ دراصل انگریزوں کا سپناتھا،اندلس میں انگریزوں کو کامیابی مل چکی تھی،اورہندوستان میں اس عمل کودہراناچاہتی تھی ، اسی مقصد کے پیش نظرکثیرتعدادمیں پادریوں کو ہندوستان بھیجاگیا ،اوراس کی قیادت عالمِ عیسائیت کے سب سے بڑا پادری ( فنڈر)کوسونپی گئی،فنڈرکا قیام آگرہ میں تھا، وہیں پروگرام بنتا،اور پورے ملک میں مشنری کی طرح اس کام کو انجام دیا جاتھا ،گورنمینٹ کی چونکہ سرپرستی حاصل تھی، بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی توعیسائیت کے فروغ اور پورے ملک کو عیسائیت کے رنگ میں رنگنے کے لئے لندن پارلیمنٹ سے اس کی منظوری بھی حاصل کرچکی تھی،اس لئے بڑے ہی زوروشور سے عیسائیت کی تبلیغ ہونے لگی،اورہندوستان کو دوسرااندلس بنانے کا مضبوط پلان تیارکیاجانے لگا۔

اسلام،شعائراسلام کو نشانہ بنایاجانے لگا،دہلی کی جامع مسجدکی سیڑھیوں پر چڑھ کر مسلمانوں کوللکاراجاتا،یہاں تک کہ یہ خبربھی پھیل گئی کہ جامع مسجد کوگرجاگھرمیں تبدیل کردیاجائے گا،انگریزکا سب سے بڑاپادری فنڈر کی کتاب میزان حق کی تقسیم واشاعت ہونے لگی،مقصدیہی تھاکہ پوراہندوستان عیسائیت کے ماننے والے بن جائیں،مسلمانوں کےعلاوہ دیگربرادران وطن کے لئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا بھی نہیں،مگر امتِ محمدیہ ﷺ کے لئےیہ بڑی شرم کی بات تھی، حالانکہ وہ ایسا دور تھاکہ انگریزی حکومت کے خلاف کسی میں بولنے کی ہمت نہیں تھی، ایسے میں یہی بوریہ نشیں علماء کرام میدان میں آئے،اوراس وقت کی سب سے بڑی طاقت سے ٹکر لے لی۔

تاریخ میں یہ واقعہ درج ہے کہ کیرانہ کے رہنے والے مولانارحمت اللہ صاحب آگرہ کے لئے روانہ ہوگئے،پادری فنڈر سے ملے،اور مناظرہ کی دعوت دے دی،پادری فنڈرکو اپنی حکومت،اقتدارپربڑاغرورتھا،اس لئے مناظرہ کو قبول کرلیا،اور تاریخ طے ہوگئی،مقررہ تاریخ کے مطابق 10 اپریل 1854 کو آگرہ میں مناظرہ شروع ہوا، پادری کو اپنے بارے میں علم کے پہاڑ ہونے کا دعویٰ تھا،مگر وہ مولانارحمت اللہ کیرانوی ؒکے دلائل کے سامنے ٹک نہیں سکا،مناظرہ نسخ، الوہیت مسیح، نبوت محمدی اور قرآن بر حق جیسے موضوعات پر تھا،پہلے ہی دن مولانارحمت اللہ کیرانویؒ نے توریت میں تحریفات کے اتنے دلائل پیش کئے کہ پادری بغلیں جھانکنے پرمجبور ہوا، یہاں تک کے کئی جگہوں پر تحریفات کا اقراربھی کیا،دوسرے دن بھی مناظرہ ہوا،مگر پادری فنڈراور اس کے ساتھیوں کے پاس مسئلہ نسخ اور الوہیت مسیح پر کوئی جواب نہیں تھا،سرکاری کارندے وہاں موجودتھے،سارے لوگ دیکھ رہے تھے کہ پادریوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

یہ کوئی عام مناظرہ نہیں تھا؛بلکہ مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کو باقی رکھنے کے لئے لڑی جانے والی ایک ایسی جنگ تھی کہ یہیں سے مستقبل کا نقشہ تیارہوتا،اور یہیں سے اس ملک کے مذہب کا بھی فیصلہ ہوتا،لیکن الحمدللہ اس جنگ میں علماء کرام کو کامیابی ملی،پادری فنڈربری طرح ہارگیا،اس مناظرہ کی گونج پورے ہندوستان میں پھیل گئی،مسلمانوں کو حوصلہ ملا،ایک ملک ،ایک مذہب،کا سپناانگریزکا چکناچورہوکررہ گیا،اسی پر بس نہیں کیابلکہ مولانارحمت اللہ کیرانویؒ نے فنڈرکی کتاب کے جواب میں ازالۃ الاوہام کتاب لکھی،اسی طرح اظہارالحق بہت ہی معرکۃ الآراء کتاب تصنیف فرمائی،جس کے بارے میں انگریز نے کہاتھا:اس کتاب کے رہتے ہوئے عیسائیت کافروغ ممکن نہیں ہے،پادی تو بغیراطلاع کے فوراہی یہاں سے فرارہوکرلندن پہونچ گیا،مگر حکمرانوں کو شکست کا اتناصدمہ تھاکہ پادری فنڈرکو لندن میں عہدہ سے معزول کردیاگیا۔

مذہبِ اسلام ؛کامل ومکمل،آفاقی،عالمگیراور آخری مذہب ہے،اب اس کے بعد کوئی دوسرا مذہب آنے والانہیں ہے،وافرمقدارمیں ہمارے پاس ایسے افراد کا مہیاہوناضروری ہے جو ضرورت پڑنے پر حق کو ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں،اورآج کے دنوں میں جبکہ پوری دنیا گھرآنکن کی طرح ہے،کسی بھی فتنہ کے پوری دنیاتک پہونچنے کے لئے سکنڈوں کا وقت بھی بہت زیادہ ہے،اگر ہم میں سے کوئی مولانارحمت اللہ کیرانوی پیدانہیں ہوا،اور ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی تو آنے والے کل بڑے خطرناک ہوسکتے ہیں!
مضمون نگار:معروف صحافی،ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ کے ایڈیٹر،اور ترجمان ملت ڈاٹ کام کے بانی وچیف وایڈیٹر ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے