جھارکھنڈ و مہاراشٹر کے نتائج پر ماہرین کا تجزیہ !

جھارکھنڈ و مہاراشٹر کے نتائج پر ماہرین کا تجزیہ !

محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طرف جہاں مہاراشٹر کے نتیجے سے لوگوں میں مایوسی ہوئی،تو وہیں دوسری طرف جھارکھنڈ کے نتائج سے لوگوں کو اطمینان اور خوشی ہوئی کہ اب بھی اگر زمینی محنت ہو اور لوگوں کو حقائق ،اور بنیادی مسائل سے باخبر کیا جائے اور حکمت و دانائی سے ان کے سامنے ملک و ملت کی صحیح تصویر اور صورت حال رکھی جائے تو وہ جمہوری طاقت کو ہی مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے اور سیکولر پارٹیوں کے حق میں ہی رائے دہی کریں گے اور ملک میں امن و امان ، ترقی اور وکاس کو ہی اصل ترجیح اور اہمیت دیں گے ،مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر سیاست اور رائے دہی سے گریز کریں گے ۔
جھارکھنڈ کے ووٹروں نے یقینا سوجھ بوجھ اور عقلمندی کا ثبوت دیا اور جذباتی نعروں سے متاثر نہیں ہوئے اور اپنے ووٹ کو بکھرنے سے بچا لیا ،یقینا اس میں وہاں کے ارباب دانش اور باخبر علماء کا بھی بہت اہم رول اور کردار ہے ،انہوں اس کے لیے بہت خاموشی سے محنت کی ،لوگوں کی ذہن سازی کی ،میڈیا پر آنے سے گریز کیا اور ساتھ ہی نفرتی نعرہ لگانے والوں کو کوئی جواب نہیں دیا ، اس لیے بہت شانتی کے ماحول میں لوگوں نے اپنا نفع و نقصان سوچ سمجھ کر ووٹ کیا ،جس کے نتائج امکان کے مطابق آئے ۔ مہاراشٹر میں بھی کوشیش ہوئیں ،لیکن بعض لوگوں کے کھل کر میدان میں آنے سے یہ مسئلہ ہندؤ مسلم کا بن گیا اور اس سے زعفرانی طاقتوں کو کھل کر اپنے حق میں لوگوں کو کرنا آسان ہوگیا ،کاش یہ حضرات جو سیکولر ووٹروں کو متحد کر رہے تھے اور سیکولر پارٹیوں کے حق میں فضا ہموار کر رہے تھے،سابقہ لوک سبھا الیکشن کی طرح حکمت عملی اختیار کرتے اور کھل کر میڈیا میں نہ آتے تو یقیناً آج مہاراشٹر کے نتائج بھی سابقہ لوک سبھا کے نتائج کی طرح ہوتے ۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا ۔
ہمارے بہت سے دوست و احباب کا تقاضا ہے کہ حالیہ نتائیج پر میں تجزیہ لکھوں اور کہاں کیا بھول ہوئی، اس پر بھی کچھ لکھوں ، لیکن ابھی میرے لیے اس موضوع پر لکھنا اور تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ اس میدان کے ماہرین نے اس پر جو لکھا ہے ،ان میں سے ایک دو تجزئیے ہم یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تاکہ ہمارے سامنے صحیح صورت حال رہے اور آئیندہ ہم صحیح فیصلہ کرسکیں اور لوگوں کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔ م۔۔۔۔ق۔۔۔ن

سیاہ فام امریکیوں اور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خاطر پوری زندگی لڑائی کرنے والے معروف سماجی کارکن اور مسلم مفکر مالکولم ایکس امریکی میڈیا کے بڑے ناقد مانے جاتے تھے۔ مالکولم کا کہنا تھا کہ اگر آپ میڈیا کو ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے ہیں یا ان کے ایجنڈوں کو گہرائی سے نہیں جانتے ہیں تو اس کا پورا امکان ہے کہ جس اخبار کو آپ خرید کر پڑھتے ہیں وہی اخبار آپ کو آپ کے اپنے ہی مفاد کے خلاف کھڑا کرسکتا ہے۔ وہ خاص طور سے اس رائے کے حامل تھے کہ امریکہ میں نسل پر مبنی مظالم کو بڑھاوا دینے اور افریقی نژاد امریکیوں کی منفی امیج تیار کرنے میں میڈیا کا کردار سب سے زیادہ رہا ہے۔ مسلمانوں کی امیج کے بارے میں میڈیا کے رول پر بھی انہوں نے کہا تھا کہ مسلمان اور اسلامی ممالک کو پیش کرتے وقت میڈیا حقیقت کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ ان کی شبیہ بگاڑتا ہے تاکہ مسلمان جس تحریک کو بھی کھڑا کرے اس کی معنویت ختم کی جا سکے۔ ان کا ماننا تھا کہ میری امیج (بطور مسلم) میڈیا اس طرح تیار کرتا ہے گویا میں کوئی تشدد پسند ملیشیا ہوں۔ امریکی میڈیا کی نظر میں مجھے سیاہ فام لوگوں کے حقوق کی باتیں کرنے والا ایک فکری انسان کی طرح کبھی پیش نہیں کیا جاتا۔ ان کے مطابق یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے پاس ایک ایجنڈہ ہوتا ہے جس کی ترویج بار بار کی جاتی ہے تاکہ ایک خاص قسم کی رائے عامہ تیار ہوجائے۔
امریکی میڈیا کا یہ حال آج بھی تقریبا یہی ہے۔ سیاہ فاموں اور اسلام و مسلمان کے خلاف اس کے موقف میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ بس نوعیت کا فرق ہوگیا ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کے میڈیا ہاؤسیز کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے؟ یہاں تو حقیقت پسند میڈیا اور انصاف پسند صحافیوں کا تقریبا اکال پڑا ہوا ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے عوام کے بجائے بر سر اقتدار سیاسی جماعتوں، صنعت کاروں اور امیر زادوں کی گود میں بیٹھ کر ان کی جی حضوری کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ اسی لئے اس کو “گودی میڈیا” کا تمغہ ملا ہوا ہے۔ بہت خال خال ہی ایسے صحافی نظر آتے ہیں جو ہر حال میں عوام کے مفاد میں بولتے ہیں یا اپنے پیشہ کی لاج رکھ پاتے ہیں۔ اس کا تجربہ کئی بار کیا جا چکا ہے۔ البتہ گزشتہ ایک دہائی میں اس میڈیا کا فکری افلاس اور سرکاری چمچہ گیری کا معاملہ عروج پر پہونچ گیا ہے۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد اس کا بدبودار کردار ایک بار پھر سے معاشرہ کو پراگندہ کر رہا ہے۔ ایک طرف مہاراشٹر میں مہایوتی کی جیت کو اس طرح پیش کر رہا ہے گویا ہندوتو کی گرفت میں پوری ریاست چلی گئی ہے۔ آر ایس ایس کے گُن گائے جا رہے ہیں، نریندر مودی کی امیج کو دوبارہ سے رنگ و روغن لگاکر پیش کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں اور خاص کر کانگریس پارٹی اور راہل گاندھی کی ناکامیوں کے چرچے اتنی شدت سے جاری ہیں کہ یہ گمان گزرتا ہے گویا یہ میڈیا کے لوگ نہیں بلکہ سنگھ کے پرچارک اور نریندر مودی کے پی آر گروپ کے ملازم ہوں۔ ویسے بھی ہمارے ملک کا میڈیا اب ایک پی آر ایجنسی سے زیادہ کی حیثیت رکھتا بھی تو نہیں ہے۔ یہ میڈیا ہاؤسیز کبھی یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ اگر ہندوتو کا اتنا گہرا اثر ملک پر ہے تو پھر مہاراشٹر ہی تک اس کی کامیابی کیوں سمٹی ہوئی رہ گئی؟ اگر آر ایس ایس کا نسخہ اور عوام کو رجھانے بلکہ اپنے نظریہ پر لوگوں کو قائل کرلینے کی اتنی ہی صلاحیت ان میں موجود ہے تو پھر جھارکھنڈ میں کیوں ناکام رہ گئے؟ کیا جھارکھنڈ میں آر ایس ایس کی تنظیمیں کام نہیں کر رہی ہیں؟ اگر لڑکی بہن یوجنا کی پالیسی کی کامیابی کے اتنے ہی فائدے گنائے جا رہے ہیں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ جھارکھنڈ کے عوام بھی اس پر لٹو ہوجاتے کیونکہ جس شیو راج سنگھ چوہان نے مدھیہ پردیش میں لاڈلی بہن یوجنا کو نافذ کیا تھا اور اس کی نقالی مہاراشٹر میں مہایوتی اتحاد والی ایکناتھ شنڈے سرکار نے کی تھی وہ تو بذات خود جھارکھنڈ میں گلی گلی گھوم کر اپنے اسی منتر سے لوگوں کو پھانسنے کی کوشش کر رہے تھے تو آخر جھارکھنڈ کے عوام نے ان پر یقین کیوں نہیں کیا؟ وہی اسکیم جس کو مہاراشٹر میں بی جے پی کی کامیابی کے لئے ماسٹر اسٹروک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جھارکھنڈ میں اسی کی ناکامی پر کوئی بات کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ جہاں تک اقلیت مخالف بیان بازی کا تعلق ہے تو جھارکھنڈ میں مودی و یوگی سے لے کر آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسو سرما تک سب نے کوئی کسر باقی رکھی تھی کیا؟ اس کا مطلب اس ملک کے عوام کی اکثریت کا ذہن آج بھی اتنا پراگندہ اور اقلیت مخالف نہیں ہوا ہے جتنا کہ اس ملک کا میڈیا دن رات بتاتا رہتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو جھارکھنڈ کے قبائلیوں اور ان کی سیاسی سمجھ کا کہ انہوں نے ہندوتو کے زہر کا پیالا پینا پسند نہیں کیا اور صرف ایک سیٹ کے بجائے قبائلی علاقوں میں بی جے پی کو کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اگر مہاراشٹر میں بی جے پی اور اس کے اعلی سیاسی لیڈران کے سر کامیابی کا سہرا باندھا جا رہا ہے تو جھارکھنڈ کی ناکامی کے لئے بھی ان کو ہی ذمہ دار مانا چاہئے کیونکہ تمام بڑے چہرے جھارکھنڈ میں بھی موجود تھے۔ لیکن چونکہ میڈیا اپنا کام ایمان داری سے نہیں کر رہا ہے اس لئے جھوٹ اور آدھے ادھورے سچ کی تصویر سے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیا جھارکھنڈ کی یہ سچائی نہیں ہے کہ وہاں شیبھو سورین اور ان کی بیوی کلپنا سورین کی حکمت عملی اور انتھک محنت نے بی جے پی کے دگّجوں کے تمام زہریلے بیانات اور جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا اور عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ بی جے پی کے لوگ اس ریاست کو بانٹنا چاہتے ہیں اور یہاں کے قدرتی ذخائر کو اپنے دوستوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اس لئے ان کے دھوکہ میں نہ آئیں۔ صحیح بات تو یہی ہے کہ کانگریس اور ان کے اتحادیوں کی مہاراشٹر میں شکست اسی طرح جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے جس طرح جھارکھنڈ میں بی جے پی اور ان کے حلیفوں کی شکست کا معاملہ ہے۔ اگر جھارکھنڈ میں بی جے پی اور ہندوتو کی شکست کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے تو مہاراشٹر میں بھی ان کی جیت کا اس قدر بڑھا چڑھا کر چرچا کرنا میڈیا کی بددیانتی کا کھلا ثبوت ہے۔ اب ملک کے عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جھارکھنڈ کے لوگوں کی طرح اپنی سیاسی پختگی کا ثبوت دیں اور پروپیگنڈوں میں بہہ کر معاملہ کی اصل حقیقت سے بے خبر نہ رہیں۔ امید ہے اگلے سال بہار کے اسمبلی انتخابات میں بھی وہاں کے لوگ ایسی ہی سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیں گے بہار کی فضا کو زیر آلود نہیں ہونے دیں گے۔
راہل گاندھی کی کردار کشی پر بی جے پی اور سنگھ کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے اور میڈیا کے لوگ ہی اس کے اصل “لابھارتھی” ہیں اس لئے آپ اس بات کو سمجھیں کہ جب کانگریس اور راہل گاندھی بطور خاص میڈیا کے نشانہ پر ہوں تو اس کا مطلب وہ سچ کے بجائے ایک خاص ایجنڈہ کے تحت آپ سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس کی موٹی قیمت وہ وصول کر چکے ہوتے ہیں یا ارباب اقتدار سے چاپلوسی کرکے مستقبل میں اپنے لئے جگہ بنانے کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہمیں بہت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک صحتمند جمہوریت کی بقا کے لئے بیدار فکر عوام کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔
مہاراشٹرا الیکشن کے نتائج پر وہاں کے ذمہ دار تجزیہ نگار اور صحافی حضرات بے لاگ لکھیں گے اور سہی صورت حال سے واقف کرائیں گے۔ اس شکست فاش کے مختلف اسباب ہیں، اور صرف کسی ایک سبب کو اس شکست کی اصل وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مولانا سجاد نعمانی صاحب اس الیکشن میں بہت کھل کر سامنے آۓ تھے۔ مولانا کے اس طرز عمل سے ملت کے اکثر اہل دانش کو سخت اختلاف تھا، اور انھوں نے اسی وقت سے اپنے اختلاف اور تحفظات کا اظہار شروع بھی کر دیا تھا۔ اکثر و بیشتر افراد کا یہی کہنا تھا کہ مولانا کو خاموشی کے ساتھ صرف اسی طرح کام کرنا چاہیے جس طرح انھوں نے لوک سبھا انتخابات میں کیا تھا ، اور اس کے مثبت نتیجے سب کے سامنے بالکل واضح تھے۔
مزید پریس کانفرنس کر کے انھوں نے بطور خاص ایم وی اے کے جن امیدواروں کی تائید کی, مسلمان متفقہ طور پر پہلے سے ہی تقریبا ان تمام امیدواروں کی تائید کا عزم کر چکے تھے ، اس لیے اس طرح کھل کر اس تائید کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
مولانا کے بیانات کو میڈیا نے جس طرح اچھالا اور اس پر جس طرح ڈبیٹ ہوئیں، اس کا شاید خود مولانا کو بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا، کیونکہ اس سے پہلے ایک مرتبہ یوپی اسیمبلی انتخابات میں بھی وہ وامن میشرام کے ساتھ مل کر اسی طرح لسٹ جاری کر چکے ہیں, اور تب کوئی خاص ہنگامہ نہیں ہوا تھا۔
البتہ مجھے لگتا ہے کہ مولانا کی جاری کردہ لسٹ سے زیادہ ان کے بیان کا وہ حصہ خطرناک ثابت ہوا جس میں انھوں نے اس الیکشن کے مثبت نتیجے کے بعد مرکزی حکومت تک کی تبدیلی کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد پھر ان کے پچھلے بیانات بھی میڈیا میں اچھالے گۓ۔
مجھے مولانا کے مشیروں اور سروے ٹیم کے ممبران سے ضرور سوال کرنا ہے جنھوں نے اپنی رپورٹ مولانا کو پیش کی، اورنگ آباد سیٹ پر مولانا نے جس امیدوار کو سپورٹ کیا وہ محض 6000 ووٹ لا پایا ہے۔ نتیجہ دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ زمینی سطح پر کوئی رپورٹ نہیں تیار ہوئی بلکہ چند مشیروں نے اپنے مخصوص ماحول میں معلومات لے کر آگے بڑھا دیں۔ ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو لیکن ہر شخص کو ظاہری طور پر یہی محسوس ہوگا۔
ایک بات اور بھی بہت اہم ہے, وہ یہ کہ ہماری نمائندہ شخصیات کا اپنا ایک دائرہ کار ہوتا ہے۔ اور دائرہ کار سے نکل کر کام کرنے کے لیے ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جو مخلص بھی ہو, محنتی بھی ہو اور باخبر بھی ہو۔ شہر شہر اور گاؤں گاؤں ایسے مضبوط کیڈر کے بغیر سیاسی میدان میں بہت زیادہ دل چسپی مفید اور کارآمد نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح ہمارے سامنے یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ دینی عقیدت رکھنے والے بھیڑ ووٹ میں تبدیل ہو جاۓ یہ بالکل ضروری نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ماضی قریب تک ہمارے متعدد ملی قائدین نے بہت سی خاموش سیاسی کوششیں کیں، براہ راست حکومتوں سے بھی خطاب کیا لیکن الیکشن اور ووٹ کی گہما گہمی سے خود کو بہت دور رکھا۔ اور جن حضرات نے بھی الیکشن کے میدان میں کسی بھی قسم کی عملی کوششیں کیں, ان سب کو بڑے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔
جس وقت امتیاز جلیل صاحب کی تائید نہ کرنے پر مولانا کے خلاف بد کلامی کی گئ, ملک کے اہل دانش اور سنجیدہ طبقے نے اُس بد کلامی پر سخت احتجاج کیا، اور آج بھی ہم سب اسی موقف پر قائم ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود دانشوران ملت کے ایسے متعدد سوالات ہیں جو اہل علم و دانش کے حلقوں میں خوب گردش کر رہے ہیں اور باخبر لوگ اس سے خوب واقف ہیں۔
متعدد ملی قائدین کی یہی تاریخ رہی ہے کہ ان کے ارد گرد ایسے افراد کا ہجوم ہو گیا جو ان تک حقائق کو پہنچنے نہیں دیتے, بلکہ اپنے ذاتی رجحان و مفادات کو سامنے رکھ کر شخصیات کا استعمال کرتے ہیں۔ اس پہلو سے بھی مولانا کے خاص لوگوں کو بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اور ہماری تو پھر سے یہی گزارش ہے کہ عملی سیاست سے دور رہ کر زمینی سطح پر کیے جانے والے کاموں تک اپنے کو محدود رکھا جاۓ کہ بظاہر عافیت دارین ابھی اسی میں نظر آتی ہے۔ خارجی دشواریوں کیا کم ہیں جو اپنے لیے متعدد داخلی مسائل بھی کھڑے کر لیے جائیں ! دوسرے کی زبان اور قلم کو روکنا ہمارا اختیار نہیں، لیکن جب معبتر شخصیات اپنے کسی عمل کی وجہ سے شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے اعتبار پر زد پڑتی دیکھیں اور دیگر دینی کاموں کو متاثر ہوتا دیکھیں, اور افادہ عام کا راستہ متاثر ہونے لگے تو پھر اپنے طرز عمل پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح واقعی مخلصین کو تلاش کر کے ان کی راۓ کو بھی اپنے لیے بہترین تحفہ سمجھنا چاہیے۔
آخر میں یہ بات بھی ضرور عرض کروں گا کہ اپنے قلم و زبان کا استعمال کرتے ہوۓ ہمیں یہ استحضار ضرور رہنا چاہیے کہ ہم حدود سے متجاوز نہ ہوں۔ اگر ہم کسی پر کوئی الزام لگاتے ہیں تو خدا کی عدالت میں اس کو ثابت بھی کر سکتے ہوں۔ کسی کی غلطی اور چوک پر سنجیدہ تنقید اور اختلاف آپ کا حق ہے لیکن کسی کی نیت پر حملے کرنا اور اس کی مسلسل خدمات کو, اس کے جذبات و احساسات کو نظر انداز کرنا یہ زیادتی ہے جس کا جواب خدا کی عدالت میں دینا پڑے گا۔
جاتے جاتے ای وی ایم سے متعلق بھی یہ بات عرض کرنی ہے کہ جب تک سیاسی پارٹیاں اپنی شکست کے بعد ای وی ایم کا رونا روتی رہیں گی, حالات میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ اس پر تو سیاسی پارٹیوں کو الیکشن سے بہت پہلے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں قربانیوں کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی ہی پڑے گی ورنہ یہ رونا پیٹنا بے مقصد اور لا حاصل !!!
(تجزیہ نگار ڈاکٹر مولانا محمد ضیاء اللہ ندوی / مولانا احمد انیس ندوی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے