*سبحان اللہ کی عظمت اور فوائد*
مولانا مفتی محمد نظر الباری ندوی .
جنرل سیکریٹری جمعیت علماء ہند ضلع دربھنگہ،
آسمان و زمین ، اور اس کے درمیان کی چیزیں نباتات وجمادات ، جاندار و غیر جاندار، لیل ونہار ، اور شمس وقمر کی گردش اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود کا پتہ دیتی ہے ،اوران تخلیقات الہیہ پر غور و فکر اور تدبر فى آلاء الله کو بھی بہترین عبادت میں شامل کیا گیا ہے، اور اس موقع سے دل سے تسبیح وتہلیل اور تکبیر پڑھ کر خالق کائنات کی کبریائی بیان کرنا عمدہ خصلتوں میں سے ایک بہترین خصلت ہے، باری تعالیٰ کا ارشادِ ہے:”
إن في خلق السماوات والأرض و الاختلاف الیل و النهار لآيات الألى الالباب ”
یقینا آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں” .
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا "تفكر ساعة خير من قيام ليلة” (ابن كثير) یعنی ایک گھڑی آيات قدرت میں غورکرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر اور زیادہ مفید ہے:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اس غور و فکر کو افضل عبادت فرمایا ہے’ (ایضاً ) حسن بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے صحابہ کرام سے سنا ہے،فرماتے تھے کہ ایمان کا نور اور روشنی تفکر ہے ( معارف القرآن)
حضرت ابو سلیمان دارانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا میں گھر سے نکلتا ہوں تو جس چیز پر میری نگاہ پڑتی ہے میں کھلی آنکھوں دیکھتا ہوں کہ اس میں میرے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اور اس کے وجود میں میرے لئے عبرت حاصل کرنے کا سامان موجود ہے ۔ (ابن کثیر)
حضرت سفیان بن عیینہ رحمه الله کا ارشادہے کہ غور و فکر ایک نور ہے جو تیرے دل میں داخل ہورہاہے ۔( معارف القرآن)
اللہ سبحانہ وتعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے انسانوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، وفى الأرض آيات للموقنىن ، وفى أنفسكم أفلا تبصرون ( اذاریات ٢٠ -٢١)
زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کےلئے، اورخود تمہارے اپنے وجود میں ،
ان ہی نعمتوں میں سے ایک نعمت اٹھنے بیٹھنے ، اور چلنے کی طاقت وقوت بھی ہے، اس عظیم نعمت کی صحیح قدر وہی جانتا ہے ، جو چلنے کی نعمت سے محروم ہے، یا کسی عارض کی وجہ سے معذور ہے،
بندہ جب بھی کھڑا ہو اور جب بھی چلے، تو اس وقت اللہ کی اس نعمت کا بھی ذہن میں استحضار کرے ،اور صدق دل سے کہے ، سبحان اللہ ، تو دل میں ایک خاص قسم کی روحانیت ، سرور اور انابت الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوگی۔
ذرا غور کیجیۓ !!! نماز کے ذریعے تعلیم دی جارہی ہے جب بندہ نماز کےلئے کھڑا ہوتاہے، تو تکبیر تحریمہ کے بعد کہتا ہے سبحانک اللہم الخ۔۔۔۔جس کا ذکر قرآن مجید کےاس آیت مبارکہ میں بھی صراحت کے ساتھ موجود ہے،
فسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُ
اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو جس وقت کھڑے ہو۔ (سورۃ الطور: 48)
اور پھر بندہ جب رکوع میں جاتا ہے تو یہ جھکنے کی نعمت بھی ایک بڑی نعمت ہے ،وہاں بھی ،،سبحان ربی العظیم،، سکھایا گیا ہے۔
پھر کھڑا ہوا اور نماز کے سب سے اہم رکن سجدے میں پیشانی رکھ دی، اب یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں حدیث میں ہے کہ انسان اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اتنی قُربت والی حالت میں بھی کوئی دوسرےکلمات کی تعلیم نہیں دی گئی، بلکہ اس عظیم ترین موقع پر بھی بندوں کو جو تعلیم دی گئی ہے، وہ ہے : سبحان ربی الأعلیٰ :اس سے تسبیح کی اہمیت وعظمت کا پتہ چلتا ہے ۔
اب ذرا اور غور کیجیۓ !!!کہاں کہاں سبحان اللہ : ذکر و حمد کی تعلیم دی جارہی ہے ،
اگر آپ کا دل لوگوں کی باتوں ، طعنوں اور جملوں سے تنگ آچکا ہے تو زبان سے تسبیح ادا کیجئے: باری تعالٰیٰ کا ارشادہے ،
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ(97)فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(98)
اور بیشک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائو۔ (سورۃ الحجر)
اگرآپ کسی مصیبت میں پھنسے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ، تو تعلیم دی گئی تسبیح کی،
فَلَوْلَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ(143)
لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(144)
تو اگر حضرت یونس (مچھلی کے پیٹ میں) تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو ضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔ (سورۃ الصافات)
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ بڑے گناہ گار ہیں ، اپنی جان پر بہت ظلم کر رہے ہیں، تو تسبیح کیجئے،”
لَا اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ”(87)
(اے سبحان اللہ !) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے ، بیشک میں قصور وار ہوں۔ (سورۃ الأنبیاء)
اگر آپ کسی سفر میں کسی دوست کے ساتھ جارہے ہیں تو خوب تسبیح کیجئے،
كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا(33)
(موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ ! ہارون کو میرے ساتھ کردیجئے) تاکہ ہم دونوں تیری خوب تسبیح کریں۔ (سورۃ طہ)
اگر آپ کو لگتا ہے کہ زندگی میں کامیابیاں ہی کامیابیاں مل رہی ہیں اور فتوحات کا زمانہ شروع ہوگیا ہے ، تو تسبیح کیجئے ،
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ(1)وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ
جب اللہ کی مدد اور فتح آئےاور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی تسبیح کرو۔
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں سےصبح و شام کثرت سے تسبیحات کا مطالبہ کیا ہے ،ار شاد باری تعالیٰ ہے،
وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
اپنے رب کو کثرت سے یاد کرو اور شام و صبح اس کی تسبیح کرو۔
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا
سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو۔
وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں میں بھی تاکہ تم خوش ہوجاؤ۔
وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ،
رات کے کچھ حصے میں بھی اللہ کی تسبیح کرو اور سجدوں کے بعد بھی۔
فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ
جب ستارے ڈوبیں تو بھی اس کی تسبیح کرو۔
وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا،
رات کے لمبے وقت میں اس کی تسبیح کرو۔
تدبر فی آلاء اللہ اور تسبیحات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے’قرآن وسنت میں خاص خاص الفاظ کے ساتھ بھی بندوں کو اس کی تعلیم دی گئی ہے ،ان اہم تعلیمات سے مقصود یہ ہےکہ بندے کا دل و دماغ ہر وقت خدا کی یاد سے تروتازہ رہے ،اور بندہ اس کی یاد سے غافل نہ رہے ، اور اس کی نافرمانی سے اپنے دامن کو بجاتا رہے،
مستقل تسبیحات کی پابندی انسان کو خدا سے قربت پیدا کرتی ہے ، شیطان کا منہ کالا کرتی ہے ، اس سے بندہ کو روحانی عروج حاصل ہوتاہے ، دل کو تقویت ملتی ہے ، چہرے پر نور اور دل میں سرور پیدا ہوتاہے ، قلوب کی صفائی اور دل کا زنگ صیقل ہوجاتا ہے، یہ آسمان وزمین اور اس کے درمیان جتنی چیزیں ہیں، سب کا وظیفہ تسبیح ہے’ "وان من شىء إلا يسبح بحمده” ،
اسی سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ، تسبیح سے دل مضبوط ہوتا ہے، غم مٹتے ہیں، ربِ رحمن کی محبت پیدا ہوتی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ خوش ہوتا ہے، اس مالک حقیقی کو اپنی تسبیح بہت پسند ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مجلس سے اٹھتے تو سبحانک اللھم الخ۔۔۔۔۔۔ بڑھتے،(اور اس کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف دوسری دعائیں بھی پڑھتے تھے) اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے ،
ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا کہ کیا آپ دن میں ایک ہزار نیکیاں نہیں کما سکتے؟ صحابہ نے کہا: وہ کیسے؟ فرمایا: سو مرتبہ سبحان اللہ کہو تو ہزار نیکیاں مل جائیں گی۔
مذکورہ بالا آیات کریمہ اور نبی علیہ السّلام کے اقوال وارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی زندگی گزارنے والے ایک مرد مؤمن کی پوری زندگی تسبیح کے دائرہ میں ہونی چاہئے ،
وہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے تو اس کی بلندی ،اس کی ساخت کو دیکھکر کہے ، :سبحان اللہ:
اڑتا ہوا پرندہ دیکھے تو اس کی زبان پر سبحان اللہ ہو ،
چاند و سورج پر نظر پڑے تو کہے سبحان اللہ ،
زمین پر چلے تو اس کی بناوٹ دیکھ کر کہے ،سبحان اللہ ،چرند وپرند کو دیکھےتو کہے: سبحان اللہ:
خدائی تخلیقات میں کائنات کے اندر کتنے ہی جاندار و بے جان جیزیں ہیں، جنہیں دیکھے تو خالق کی کاری گری پر کہے ، سبحان اللہ ، بندوں کا اٹھنے ، بیٹھنے ، سونے، جاگنے، خوشحالی وبدحالی ،آفت و مصیبت ، خوشی وغمی غرض ہر آن ہر لمحہ تسبیح ہی تسبیح ہونی چاہئے ، گویا اس کی زبان تسبیحات کی لذت سے معمور ومخمور ہو ، اور جب بندہ مؤمن اس کی لذت و مٹھاس سے آشنا ہوجاتا ہے ، دل اس کی لذتوں کو پالیتا ہے ، روح اس سے تقویت حاصل کرلیتی ہے، دماغ اس کا معطر ہوجاتاہے ، تو پھر تسبیحات اس کی روحانی غذا بن جاتی ہے ، اور اس غذا کی لذتوں میں ساری زندگی،، سبحان الله ،،سبحان الله ،، میں گزار دیتاہے ،
اللہ تعالیٰ نے اس تسبیح کو کتنا آسان بنا رکھا ہے ، چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے ہروقت زبان پر جاری رکھی جاسکتی ہے ،
اے سبحان اللہ! کی ذات۔۔۔۔۔
ہمیں بھی سبحان اللہ اور دیگر تسبیحات کی حقیقت سمجھا دے، اور تسبیحات کی لذت سے قلب و جگر ،دل و دماغ کو آشنا فرمادے ،اس طور سے کہ ہر وقت زبان پر جاری رہے ، اور اس کو محض اپنے فضل و کرم سے قبول بھی فرمالے۔(آمین)