✒️ : مفتی عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
لبرل ازم، درحقیقت حقوق و اختیارات اور مساوات وآزادی کا بے طرح استعمال کرنے والا اور عقل واوہام پرست انسانوں کا قابل نکیرفکرو آوارگئ طبع سے مربوط ناقابل قبول تصورہے،جو آزاد خیالی، اسلامی حدود وقیود سے انحراف اور فکری گمرہی کی وجہ سےفتنوں کے تواتر کا راست سبب بناہواہے ۔
اسلام دین فطرت ہے ،اس میں ہر سطح سے مساوات وآزادی اور حقوق و اختیارات دئیے گئے ہیں ،مگر مطلقاً نہیں ،بلکہ اس کی حدیں طئے کی گئ ہیں ،ان اسلامی حدود اور تدابیر کے اندر رہ کر جملہ حقوق و اختیارات،مساوات رواداری کو راہ دی جاسکتی ہے،مساوات وآزادی سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ،لیکن اگربے جا جسارت کی وجہ سے فکری آوارگی اورمداہنت پیدا ہوگی تونہ صرف یہ کہ اسلام اسے برداشت نہیں کرسکتا۔بلکہ کسی قیمت پرحدود اللہ سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
لبرل ازم ایک طرح سے” شتر بے مہار ” فکر ومزاج اور بے حس آزاد خیالی سے ہم آہنگ فتنہ ہے ،جو خام خیال "دانشوری ” اور بعض اعلی عصری تعلیم گاہوں کی راہ سے پاؤں پساررہا ہے ۔آسان زبان میں اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہر ایسا شخص لبرل ازم پر یقین رکھے گا اور اس کی زور زور سے تائید کرے گاجو مذہبی "شکوک وشبہات” کو روا رکھتا ہو ۔متزلزل یقین کا پاسداری کرنے والا ہو،کتاب وسنت پر زبان لانبی چلا تا ہو اورجس کے نزدیک آزادی، مذہب سے اوپر ہو ۔ایسے شخص کو آپ "لبرل ازم” کا مارا ہوا کہہ سکتے ہیں۔دیگر فتنوں کی طرح دھیرے یہ فتنہ بھی اپنے پنکھ پھیلا رہا ہے ،اس کے مفاسد انتہائی خطرناک ہیں ،دین وشریعت میں شکوک وشبہات روا رکھنے والوں کے لئے ایمان وعقائد کی سلامتی کی دعا کے سوا اور کیا،کیا جاسکتا ہے ،یہ مرحلہ ہم سبھوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔
اس کے لئے ایک کام تو سردست یہ ہے کہ لبرل ازم کے مفاسد اور اس کی خطرناکیوں کو مسجد وار سمجھا یا جائے اور مآخذ دین وشریعت اور مذہب پر استقامت کی راہ بتائی جائے ۔دوسرا کام ایک یہ بھی کرنے کا ہے کہ ہفتہ وار کم ازکم ایک گھنٹہ کے لئے ہر مسجد میں مجلس بلائی جائے جس میں خصوصیت سے عصری تعلیم یافتہ طلباء واساتذہ یا دیگر شعبوں سے وابستہ عصری تعلیم یافتہ افراد کو جوڑا جائے اور دین وشریعت کے تعلق سے ان کے شکوک وشبہات کو دور کیاجائے ۔ان میں بہت سے احباب ایسے ہیں جو بعض مواقع پر اپنے شکوک کا اظہار کرتے ہیں اور بعض اندر ہی اندر گھٹن محسوس کرتے ہیں،وہ اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔تیسرا ایک کام یہ بھی ہے کہ یہی مجالس خواتین میں بھی شروع کئے جائیں جنہیں تفہیم شریعت کے عنوان سے جوڑا جائے۔ اس ترتیب سے اگر کام ہو تو لبرل ازم کے مفاسد پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔