لکھنے کا اضطراب

*لکھنے کا اضطراب*

(مشعل راہ ۔ 22)

ہر لکھنے والا جانتا ہے کہ تحریر کا سفر صرف الفاظ کا نہیں، بلکہ جذبات اور احساسات کا سفر بھی ہوتا ہے۔ قلم اٹھاتے ہی اگر خیالات کا دریا بہنے لگے، تو لکھنے والے کے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ بقول غالب: آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں، غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذہن میں یکدم خاموشی چھا جاتی ہے، جیسے تخلیق کی دنیا میں جمود طاری ہو جائے۔ یہ جمود وہ اضطراب ہے جو ہر لکھاری کے دل میں گھر کر لیتا ہے، جب خیالات بکھر جاتے ہیں اور الفاظ کہیں کھو جاتے ہیں۔

میڈیکل سائنس کے مطابق، یہ اضطراب محض خیالی نہیں ہوتا بلکہ جسمانی ردعمل بھی پیدا کرتا ہے۔ جب ذہن کسی کام کو انجام تک نہ پہنچا سکے، تو ایک غیرمحسوس دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ دباؤ کورٹیسول (Cortisol) اور ایڈرینالین (Adrenaline) جیسے ہارمونز کا اخراج کرتا ہے، جو نہ صرف ذہنی حالت بلکہ جسمانی کمزوری اور تھکن کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ایسے لمحات میں لکھاری خود کو بے چین، مضطرب اور کبھی کبھار سر درد میں مبتلا محسوس کرتا ہے۔ یہ کیفیت ایک مسلسل کشمکش کا حصہ بنتی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اضطراب واقعی ہمارے تخلیقی سفر کو روک دیتا ہے ____؟ حقیقت میں، یہ جمود ایک امتحان اور ایک موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں اور اپنی حالت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ لکھنے کی صلاحیت کو آزاد چھوڑنا، دباؤ کو کم کرنا، اور ذہنی سکون کا راستہ اپنانا، یہ سب اس جمود کو توڑنے اور تازگی لانے میں مدد دیتے ہیں۔

اس موقع پر ماہرین کی یہ تجویز اہم ہے کہ ایک وقفہ لیا جائے اور اپنے خیالات کو کچھ دیر کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے، کیونکہ تخلیق دباؤ سے نہیں، آزادی سے جنم لیتی ہے۔ جب لکھاری خود پر زور نہیں ڈالتا، تو نئی سوچیں خود بخود قریب آنا شروع ہو جاتی ہیں، جیسے بارش کے بعد ہوا میں تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ مراقبہ، گہری سانسیں اور ہلکی ورزش بھی ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے لیے اہم ہیں، اور اس سے انسان کو دوبارہ توانائی ملتی ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ تخلیقی جمود کا خوف نہ کھائیں، بلکہ اسے ایک فطری مرحلے کے طور پر قبول کریں اور سمجھیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ جب انسان دل اور دماغ کو سکون دیتا ہے، تو خیالات خود بخود نرمی سے ابھرتے ہیں اور لکھنے کی صلاحیت دوبارہ بیدار ہوتی ہے۔ یہ خاموشی دراصل تخلیق کی گہرائیوں کو پھر سے دریافت کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔

تحریر: عامر کلامؔ
(استاذ مدرسہ نور الہدیٰ مچھیلا، کیلاباڑی، ارریہ، بہار)
09 نومبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے