*@مختصر_کالم*
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کا تحفظ آئینی حق ہے۔ 1991 کے *پلیسز آف ورشپ ایکٹ* کے تحت 15 اگست 1947 سے پہلے موجود تمام مذہبی مقامات کی حیثیت کو تبدیل کرنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس قانون کا مقصد تھا کہ ماضی کے تنازعات کو ختم کر کے ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھی جائے، مگر حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اس قانون اور ملک کی جمہوری قدروں کو چیلنج کر دیا ہے۔
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے خلاف دائر کی گئی بے بنیاد عرضی، اور عدالت کا اس عرضی کو قبول کر کے مسجد کے سروے کا حکم دینا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے؛ بلکہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی گھناؤنی کوشش بھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس نے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پانچ سے زائد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ کیوں ایک خاص طبقے کے خلاف اس قدر متعصبانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں؟
ایسا ہی ایک معاملہ اب *اجمیر شریف درگاہ* کے خلاف سامنے آیا ہے، جہاں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ درگاہ ایک مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ یہ سراسر جھوٹا اور گمراہ کن پروپیگنڈا ہے جس کا مقصد ملک کے مسلمانوں کو دبانا اور انہیں اشتعال دلانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب *پلیسز آف ورشپ ایکٹ* موجود ہے، تو ایسی عرضیاں عدالت میں قابل قبول کیوں ہیں؟ ایسے جج جو قانون کے برخلاف عرضیوں کو قبول کرتے ہیں، وہ خود قانون کے مجرم ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ملک کے باشعور عوام، خاص طور پر مسلمان، ان واقعات کے خلاف یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس ناانصافی کے خلاف قانونی اور جمہوری جدوجہد کریں۔ جو لوگ عرضی دائر کر کے عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، وہ ملک کے امن کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے، اور ضرورت پڑے تو انہیں پھانسی جیسی مثالی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔
یہ وقت ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی کو بحال کیا جائے اور مذہبی مقامات کے تقدس کو محفوظ رکھا جائے۔
*از: آفتاب اظہر صدیقی*
کشن گنج، بہار
29 / نومبر 2024ء