قسط پنجم:
**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
(امام وخطیب جامع مسجد خاتوپورواستاذجامعہ رشیدیہ مدنی نگرخاتوپور بیگوسرائے بہار)
**علمی و تصنیفی خدمات کا روشن باب**
مفتی صاحب کی زندگی علمی و تصنیفی خدمات کا ایک تابناک باب ہے۔ خطابت سے قلوب کو گرمانا، تدریس کے ذریعے اذہان کو جِلا بخشنا، اور قلم کی روانی سے ملت کی فکری آبیاری کرنا ان کی زندگی کا خاصہ رہا ۔ ان کی تصانیف ایک دور اندیش اور بصیرت افروز عالم دین کی فکر کا آئینہ ہیں، جو ملت اسلامیہ کے مسائل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور ان کے حل کے لیے علم و حکمت کے موتی بکھیرتے ہیں۔
مفتی صاحب کی تحریریں زبان کی لطافت، بیان کی شگفتگی، اور فکر کی گہرائی کا حسین امتزاج ہیں۔ ماہنامہ ندائے قاسم میں لکھے گئے ان کے مضامین اور اداریے اصلاحِ امت کی ایک زندہ تصویر ہیں، جن میں نہ صرف مسائل کی نشاندہی کی گئی بلکہ ان کا مؤثر حل بھی پیش کیا گیا۔
ان کی تصنیفی خدمات ملت کے لیے ایک انمول اثاثہ ہیں، جو آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی اور روشنی کا مینار ثابت ہوں گی۔ ان کی نمایاں تصانیف کا سرسری تعارف پیش خدمت ہے۔
**1. جشن صدسالہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ: ایک تاریخی دستاویز**
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صد سالہ جشن کے موقع پر مفتی صاحب نے بحیثیت پریس سکریٹری اور میڈیا انچارج اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس یادگار تقریب کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے انہوں نے 264 صفحات پر مشتمل ایک جامع کتاب "جشنِ صدسالہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ: ایک تاریخی دستاویز” کے عنوان سے ترتیب دی۔ یہ کتاب اس قدیم علمی ادارے کی عظمت، خدمات اور تاریخ کا ایک ایسا آئینہ ہے، جو نہ صرف اس کے علمی و تدریسی کردار کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کی صدیوں پر محیط قربانیوں اور کامیابیوں کو بھی روشن کرتی ہے۔
یہ تصنیف محض ایک رپورٹ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید دستاویز ہے، جو علم کے متلاشیوں اور تاریخ کے شیدائیوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگی۔ مفتی صاحب کی یہ کاوش صد سالہ جشن کی یادوں کو نہ صرف تازگی بخشتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی علمی ورثہ بھی بناتی ہے۔ یہ کتاب ان کے تحقیقی ذوق، تحریری مہارت اور تاریخی واقعات کو مربوط انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
"جشنِ صدسالہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ: ایک تاریخی دستاویز” ملت کے لیے ایک بے مثال علمی اثاثہ ہے، جو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کی علمی و عملی خدمات کے ساتھ ساتھ انفرادیت اور عظمت کو بھی ہمیشہ کے لیے زندہ وجاویدکر دیتی ہے۔
**2. نزول عیسیٰ بن مریم ،ظہور محمدبن عبداللہ المہدی**
موجودہ دور کے فتنے، بالخصوص شکیلیت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے عقائد و افکار کو شدید چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔ ایسے نازک حالات میں مفتی صاحب نے اپنی بصیرت اور دینی غیرت سے سرشار ہو کر ایک اہم علمی موضوع پر قلم اٹھایا اور "نزولِ عیسیٰ بن مریم اور ظہورِ محمد بن عبداللہ المہدی” کے عنوان سے ایک مدلل و معیاری تصنیف ترتیب دی۔
یہ کتاب صرف ایک تصنیف نہیں بلکہ حقائق کی وضاحت اور عقائد کی اصلاح کے لیے ایک مؤثر اور علمی دستاویز ہے، جس نے فتنے کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مفتی صاحب نے اپنی تحریر کے ذریعے قاری کو نہ صرف اس سلگتے دینی مسائل کی گہرائی سے روشناس کرایا بلکہ ایک ایسے علمی سفر پر گامزن کیا جو حق و باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔
کتاب کی غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی اشاعت کے چند ماہ کے اندر ہی اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ یہ تصنیف عقیدے کی پاکیزگی اور فکری اصلاح کی جانب ایک پیش رفت ہے، جو علم و بصیرت کے متلاشیوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ حضرت عیسی بن مریم الگ شخص ہیں،اور مہدی الگ ہیں،اسی کے ساتھ شکیل بن حنیف خان کے گمراہ کن عقیدہ کے بطلان کو بھی واضح انداز میں پیش کرتی ہے_
**3. اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت**
اسلام میں خاندانی نظام کی بڑی اہمیت ہے،ایک دوسروں کے حقوق کی رعایت کا تاکیدی حکم اسلام دیتاہے،خاندان میں بکھراؤ،انتشار، آپسی چپقلش کو کبھی بھی پسند نہیں کیاگیاہے،مفتی صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا،اور المعہد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں منعقد فقہ اکیڈمی انڈیا کی جانب سے منعقد سمینار میں پیش کردہ اپنا مقالہ”اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت”کو ازسر نو ترتیب دیا،یہ کتاب سماجی اصلاحات کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے،عورتوں، مردوں، نوجوانوں،بوڑھے،بزرگوں کے لئے ایک قیمتی اور علمی ورثہ ہے،اور بہترین مرجع خلائق ہے۔
**4_نکاح عبادت ہے**
سماجی اور معاشرتی اصلاح کے لئے آج کی دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ نکاح عبادت ہے،وہ کوئی کھیل یا تماشہ نہیں ہے کہ جس طرح چاہیں اس کو انجام دیں،مفتی صاحب نے اس سمت بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے اور بہت ہی سادگی کے ساتھ ایک کتاب تصنیف فرمائی”اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت”
**5. جہیزایک سماجی کینسر**
کینسر ایک لاعلاج بیماری ہے،اس لئے بیماری سے پہلے ہی سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے،اسی طرح جہیز کا معاملہ ہے،اس نے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑدیا،اور کتنی دوشیزائیں آگ کے حوالے کردی گئیں،اس کے پیچھے کی وجہ صرف اور صرف جہیز کی وبا،اور مطالبہ ہے ،مفتی صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا،اور بہار رابطہ کمیٹی کے ایک پروگرام میں اس عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا،پھر اس کو حذف واضافہ کے ساتھ کتابی شکل میں پیش کیا”جہیز;ایک سماجی کینسر”،یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے جامع اور مدلل ہے بلکہ ان میں موجود اصلاحی پیغام نے قارئین کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔
*6_1857سے پہلے آزادی ہند کی جنگ*
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ 1857پہلی جنگ آزادی ہے،جبکہ ایسا نہیں ہے،حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے 2008 میں رحمانی فاونڈیشن کی جانب سے آل انڈیا مسابقہ تحریری کا اعلان کیا،مفتی صاحب نے اس پر اپنا مقالہ لکھا،اور الحمدللہ ان کی دوسری پوزیشن آئی،اس مقالہ کو بہت ہی خوبصورت اور تحقیقی انداز میں ترتیب دیا یہ کتاب زیر طبع ہے،جو لائق مطالعہ ہے_
اس موقع سے حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ سے مفتی صاحب کی پہلی ملاقات خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی ہوئی، اور یہ ملاقات مفتی صاحب کی علمی زندگی کے لیے ایک یادگار لمحہ بن گئی۔
ملاقات کا واقعہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مفتی صاحب سے مخاطب ہو کر دریافت کیا، "آپ سبل پور سے آئے ہیں؟” مفتی صاحب نے جواب دیا، "جی، حضرت!” اس پر حضرت نے فرمایا، "وہاں سے ایک رسالہ نکلتا ہے، ماہنامہ ندائے قاسم، اس میں ایک مضمون ”سستا خون“پڑھا تھا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے دنیا میں کوئی نیا اہلِ قلم پیدا ہوا ہے!” حضرت کے خادم نے ان سے دریافت کیا کہ ، "یہ مضمون کس نے لکھا تھا؟” حضرت نے فرمایاکہ، کوئی خالدانور پورنوی صاحب کا تھا۔ تو خادم نے اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا، "حضرت، یہی صاحب خالدانور پورنوی ہیں۔”
یہ سن کر حضرت نے خوشی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، "ماشاءاللہ! میں تو شکل سے آپ کو پہچان نہیں پایا تھا۔ آپ کی تحریر پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے درمیان ایک نیا اہلِ قلم اُبھر رہا ہے۔” یہ الفاظ مفتی صاحب کے لیے ایک بہت بڑا اعزازی اعتراف تھا، جو ان کی علمی کاوشوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کا اولین موقع ثابت ہوا۔
یہ ملاقات نہ صرف مفتی صاحب کے لیے ایک یادگار تجربہ بنی بلکہ ان کے قلمی سفر کے لیے مزید تحریک اور جذبے کا سبب بھی بنی، اور یہیں سے ان کی علمی خدمات نے مزید وسعت اور گہرائی اختیار کی۔
**7. زیرِ طبع تصانیف**
مفتی خالد انور پورنوی المظاہری کی علمی کاوشوں کا سفر رواں دواں ہے، اور ان کے زیرِ طبع تصانیف اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ تحقیق، تصنیف اور علمی خدمت کے میدان میں مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ ان کے جاری منصوبے ان کی گہری علمی بصیرت اور متنوع دلچسپیوں کا مظہر ہیں، جو علم کے متلاشیوں کے لیے امید کی کرن ہیں۔
ان کے زیرِ طبع کاموں میں حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ(بانی جامعہ مدنیہ سبل پورپٹنہ) کی تفسیر (سورۃ القصص، العنکبوت، الروم) کی ترتیب و تحقیق ایک نہایت اہم اور جامع تفسیر قرآن کریم ہے جو ان شاءاللہ جلد ہی قارئین کے سامنے پیش ہونے والی ہے۔
ایک اور کتاب "حیات و خدمات حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ (1935-2019)”
یہ تصنیف مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ان کی دینی، علمی اور اصلاحی خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف مولانا کی شخصیت کا تفصیلی خاکہ پیش کرے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی تاریخی دستاویز ہوگی۔
مزید برآں، پانچ سو صفحات پر مشتمل ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ میں لکھے گئے ملک وملت اسلامیہ کے حوالے سے ان کے بے باک ادارئیے کا مجموعہ بھی زیرِ ترتیب ہے، جس میں مختلف موضوعات پر ان کے قلمی شہ پاروں کا انتخاب شامل ہوگا۔ یہ کتاب ان کے افکار و خیالات کا نچوڑ اور ان کی متنوع علمی زندگی کا آئینہ ہوگی، جو قارئین کو ایک نئی فکری دنیا سے روشناس کرائے گی۔
یہ زیرِ طبع تصانیف نہ صرف علمی حلقوں میں ان کے مقام کو مزید مستحکم کریں گی بلکہ علمی تحقیق کے میدان میں ایک اہم سنگ میل بھی ثابت ہوں گی۔
**علمی خدمات کا یہ تسلسل جاری ہے**
مفتی صاحب کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کی کتابیں اور تحقیقی کام ملت کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ علمی میدان میں ان کے گہرے اثرات کا مظہر ہیں۔ ان کی تحریروں کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہایت سادگی، دلائل کی قوت اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ ان کی علمی خدمات کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ بھی ہے۔
ان کا قلم ہمیشہ حق کی حمایت اور اصلاح کی دعوت دیتا رہا ہے، اور آئیندہ بھی ان کی تحریریں ملت اسلامیہ کی فکری و عملی بیداری میں اہم کردار ادا کرتی رہیں گی۔