احمدحاطب صدیقی (ابونثر)
ایک عربی مقولہ ہے:”النّاسُ عَلیٰ دِینِ مُلُوکِہِم“(لوگ اپنے ملوک کے طریقے پرچلتے ہیں)
اب ملوک تو رہے نہیں۔ بچے کھچے کچھ رہ بھی گئے ہیں تووہ ملوک کم اور ’غلام‘ زیادہ ہیں۔ مگرصاحب، ملوکیت خوب پھل پھول رہی ہے۔ جو بندہ جس جگہ ہے وہیں بادشاہ ہے۔کہنے کو یہ سلطانیِ جمہور کا زمانہ ہے مگرجمہور ہر جگہ مقہور ہیں۔ایک سے ایک ’قاہر‘ جمہوریت کا ماہر بن کر ہماراسلطان بنا بیٹھا ہے۔ ہر ’جمہوری بادشاہ‘چاہتا ہے کہ باقی سب بادشاہ بس اُسی کی بادشاہی کے آگے سر جھکا ئیں۔ اقبالؔ تو اِس جمہوری تماشے کو ’دیوِ استبداد کی پاکوبی‘ ہی قرار دیتے رہے، ایسے دیوکا رقص، جو جمہور کی کمائی بالجبر ہتھیا کر خود ہڑپ کر جاتا ہے،وہ کہتے ہیں:
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
کسان کے کھیت کی پیداوار کھا جانے والا ہی ’سلطان‘ ہے۔ خواہ یہ’کھاؤ ُ پیر‘ خسرو پرویز جیسا قاہربادشاہ ہو یا ’مجلسِ ملت‘ (پارلیمنٹ) جیسا قہرمان ’جمہوری ادارہ‘۔حاصل کلام یہ کہ ……’وہ تیری صف میں ہو یا میری صف میں …… مَیں ہر ظالم پہ لعنت بھیجتا ہوں‘۔
ملوک کا ذکر آہی گیا ہے تو کالم کی مناسبت سے ’کلامِ ملوک‘ کا بھی کچھ تذکرہ ہو جائے۔ عربی کا ایک اور مقولہ ہے: ”کَلامُ المُلوک مُلوکُ الکلام“۔ ’بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے‘۔ مگر ہمارے بادشاہ تو عجب بادشاہ ہیں۔ خواہ وہ حکومت کے بادشاہ ہوں، سیاست کے بادشاہ ہوں، صحافت کے بادشاہ ہوں یا سمعی و بصری ابلاغیات کے بادشاہ۔ ہمارے زمانے میں سب سے پست اور سب سے ناقص کلام اِنھیں بادشاہوں کاہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں بادشاہت کے منصب پر فائز ہونے والے حسنِ کلام کا بہت خیال رکھتے تھے۔یہ احساس رکھتے تھے کہ ان کا مقام بلند ہے، لہٰذا ان کا کلام بھی بلند ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے ہاں بھی ‘King’s English’ مثالی اور معیاری انگریزی مانی جاتی تھی۔ سرکار دربار میں قواعد واِ نشا ہی کا نہیں، لب و لہجے کا خیال رکھنا بھی آدابِ شاہی میں داخل تھا۔ برطانیہ کا چار بار وزیراعظم رہنے والا ولیم ایورٹ گلیڈ اسٹون اپنے وقت کا بہترین خطیب اور صاحبِ علم شخص تھا۔جب وہ ملکہ وکٹوریہ سے تنہا ملاقات کے لیے جاتا تو ملکہ سے خوشامدانہ لہجے کی بجائے اپنے مخصوص عالمانہ اور خطیبانہ لہجے میں گفتگوکیا کرتا۔ اس پر ملکہ نے جو دلچسپ شاہانہ تبصرہ کیا وہ آج بھی ضرب المثل بنا ہوا ہے:
"He speaks to Me as if I was a public meeting.”
”وہ مجھ سے ایسے خطاب کرتا ہے،جیسے میں کوئی جلسۂ عام ہوں“۔
جلسۂ عام سے خطاب کرنا ہو تو ہمارے سب بادشاہ اُردوبولنے لگتے ہیں۔چاہے آئے یا نہ آئے۔ورنہ وطنِ عزیز کے بگڑے بادشاہ بس انگریزی کو بادشاہوں کی زبان سمجھ کربزعمِ خود انگریز بادشاہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں منہ ٹیڑھاہو جاتا ہے، مگر انگریزی بگھارتے ہیں۔ خواہ آئے یا نہ آئے۔پوری قوم کو آئے دن یہ تماشے دیکھنے پڑتے ہیں۔قوم تو’انگریزی تماشا‘ نہیں دیکھنا چاہتی:
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
خدا جانے ہمارے بادشاہوں کی بدقسمتی ہے یا ہماری خوش قسمتی کہ ہماراکوئی بادشاہ ہمارا کالم نہیں پڑھتا۔ہمارے عزت مآب وزیرِ اعظم شہباز شریف کے نامِ نامی، اسمِ گرامی میں ’شہ‘ کا لفظ شامل ہے جو ’شاہ‘ کا مخفف ہے۔ ’شاہ‘ بادشاہ کامتبادل ہے۔خفت ہمیں اُس وقت ہوتی ہے جب ہمارے وزیر اعظم انگریزی بولتے ہیں۔کیا ضرورت ہے انگریزی بولنے کی؟اُن کی اُردو اُن کی انگریزی سے کہیں بہتر ہے۔ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔ حبیب جالبؔ کی نظمیں لہک لہک کر گاتے ہیں۔اُردو ہماری قومی زبان ہی نہیں، آئین کی رُو سے ہماری سرکاری زبان بھی ہے۔ سرکار کوسرکاری زبان بولنے میں کیا امر مانع ہے؟ ایک مضحکہ خیز منظر دیکھ کر تو ہم اور بھی خفیف ہو جاتے ہیں۔ جب چین، ایران یا ترکی سے آئے ہوئے مہمان ہمارے ملک میں آکر اپنی اپنی قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں اور ہمارے حکمران (کوٹ میں پھنس کے اورٹائی کس کے) اُن کے خطاب کا جواب اُنھیں امریکی یا برطانوی زبان میں دیتے ہیں۔ مہمان تو مروتاً پوچھ نہیں پاتے، ہم پوچھے لیتے ہیں کہ
”یور ایکسی لینسی! کیا پاکستان بے زبان ہے؟“
لگے ہاتھوں یہ بھی پوچھ لینا چاہیے کہ ”کیا پاکستان بے لباس ہے؟“ قائد اعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشترؔ سمیت پاکستان کے تمام ابتدائی حکمران ایک خاص قومی لباس پہنا کرتے تھے۔کچھ دنوں تک وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاتے وقت قومی لباس پہن کر اس روایت کی پابندی کی گئی۔ پھر آزادی اور تحریکِ آزادی کے اس علامتی لباس کو بھی ترک کر دیا گیا، کیوں کہ اس لباس سے آزادی کی خوشبو پھوٹتی تھی، بوئے غلامی نہیں آتی تھی۔
اپنا پہناوا پہننے، اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنی زبان میں اظہارِ خیال کرنے والامردِخود آگاہ اپنے آپ کو جس قدر آزاد اور خود مختار محسوس کرتا ہوگااتنا اعتماداُس شخص کے دعوائے دانشوری میں نہیں ہوسکتا، جس کے متعلق پاک فضائیہ کے شاعر رحمٰنؔ کیانی مرحوم نے فرمایا تھا:
ذہن میں غیروں کی باتیں، منہ میں مانگے کی زباں
اس پہ دعویٰ یہ کہ صاحب ہم بھی فرزانوں میں ہیں
ذہنی، فکری، تہذیبی، ثقافتی، لسانی اور عملی آزادی کی مثال لینا ہو تو ’افاغنہ‘ سے لیجے۔ افغانی برطانیہ کے غلام رہے، نہ روس کے غلام ہوئے، نہ امریکا کے غلام بنے۔لہٰذا یہ مردانِ آزاد اپنے ذہن سے سوچتے ہیں، اپنی زبان بولتے ہیں، اپنا لباس پہنتے ہیں اور اپنی مرضی کرتے ہیں۔ آزاد اور خود مختار ہیں۔ اُنھیں کسی سے مانگا ہوا قرض ادا کرنے کی معذوری ہے نہ کسی سے بھیک مانگ کر ’ڈکٹیشن‘ لینے کی مجبوری۔ ہمارے حکمران اور دانشور جس کا کھاتے ہیں اُس کا گاتے ہیں۔ مگروہ چوں کہ اپنا کھاتے ہیں، اس لیے اپنا ہی گاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جوبھی اُنھیں پھانسنے آیا وہ خود پھنس گیا اور جو بھی اُنھیں پیٹنے آیا وہ اپنا ہی منہ پِٹا کر اور پٹ پٹا کر سرپٹ بھاگا۔
کل یومِ اقبالؔ ہے۔اقبال کا کلام ملت کو غیرت و خودداری کے ساتھ دنیا میں سربلند ہو کر جینے کا طریقہ سکھاتا ہے اور حسنِ کلام کا سلیقہ ۔اہلِ کلام یہ کہتے ہیں کہ اقبالؔ کا کلام بھی ’کلاموں کا بادشاہ‘ ہے۔مگراِس کلام سے کچھ سیکھنے کے لیے ’گیسوئے اُردو‘ کی چھاؤں کو تعلیمی اور نشریاتی اداروں تک بڑھانے کی ضرورت پڑے گی۔پر یہاں تو ’گیسوئے اُردو‘ کی حجامت بنائی جا رہی ہے۔ حجاموں کی اکثریت برقی ذرائع ابلاغ پر بیٹھی دونوں قسم کی قینچیاں چلا رہی ہے۔ان میں شاہی حجام بھی ہیں اور نوکر شاہی حجام بھی۔شاہی بھی کیا؟ یہ خود کسی ’شاہ‘ سے کم ہیں؟ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ ابلاغ کے بادشاہ اگر ’عوام‘ کو واحد مؤنث قرار دے ڈالیں تو عوام پورے ملک میں ’واحد مؤنث ہو جاتی‘ ہے۔ یہ اگر ’اقدام اُٹھانا‘ شروع کردیں تو حکومت سمیت سب ہی ’اقدام کرنے‘ سے باز آجاتے ہیں۔ ہزار بار ہزار لوگوں کوسمجھایا، مگر کسی کی ”سمجھ میں نہ آیا‘‘[ کیوں کہ ان اداروں میں کسی کو ”سمجھ نہیں آتی“] کہ قدم اُٹھایا جاتا ہے اور اِقدام کیا جاتا ہے۔اِقدام کا مطلب ہے ’پیش قدمی‘۔ اقدام ضد ہے پسپائی کی۔اور یہ کہ عوام جمع مذکر ہیں، لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں صرف عوام پس رہی ہے۔درست تو یہ ہے کہ اس ملک میں صرف عوام پس رہے ہیں۔ باقی سب بادشاہ ہیں۔چکی پر بیٹھے عوام کو پیس رہے ہیں۔
٭٭