قسط چہارم:
**عبدالمجید اسحاق قاسمی**
(امام وخطیب جامع مسجد خاتوپور و استاد جامعہ رشیدیہ مدنی نگر خاتوپور، بیگوسرائے، بہار)
مولانا مفتی خالد انور پورنوی کی دینی وملی خدمات کا ایک تابناک باب ان کی امامت، خطابت، دروس ،اور تنظیمی سرگرمیوں سے مزین ہے، جس نے پٹنہ کے علمی، تہذیبی، اور ادبی افق پر ان کی شخصیت کو منفرد مقام بخشا۔ ان کی زندگی کا یہ عہد علمی گہرائیوں، فکری رفعتوں، اور تحریکی بصیرت کا آئینہ دار ہے، جہاں ان کے عزم و استقلال نے ایسے انمٹ نقوش ثبت کیے جو نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ان کی خدمات پٹنہ کی دینی اور تنظیمی تاریخ میں ایک ایسا درخشاں حوالہ ہیں، جو ہمیشہ روشنی بکھیرتا رہے گا۔
**جامع مسجد تریپولیہ میں نماز جمعہ کی امامت و خطابت**
پٹنہ کی تاریخ ساز جامع مسجد تریپولیہ، جو اپنی قدامت اور مرکزیت کے سبب نہ صرف ایک عبادت گاہ ہے بلکہ دینی، سماجی اور فکری تحریکات کا محور بھی، مفتی خالد انور پورنوی کی امامت و خطابت کے عہدِ زریں کی گواہ ہے۔ تقریباً سات برس تک اس عظیم مسجد کے منبر سے ان کی آواز علم و حکمت کے چراغ روشن کرتی رہی، اور ان کے خطبات جمعہ سامعین کے قلوب کو ایمان کی روشنی سے منور کرتے رہے۔
مفتی صاحب کے خطبات میں قرآن و حدیث کی عمیق بصیرت کے ساتھ عصر حاضر کے مسائل کا دقیق تجزیہ جھلکتا تھا۔ ان کی بات کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ پیچیدہ دینی موضوعات کو نہایت سلیقے اور آسان زبان میں پیش کرتے، جس سے ہر طبقے کے سامعین یکساں مستفید ہوتے۔ ان کے خطبوں میں دینی وحدت، اصلاح معاشرہ اور تربیتِ امت کا جوش نمایاں رہتا، جو نہ صرف سامعین کے ایمان کو تازگی بخشتا بلکہ ان کے دلوں میں عمل کی امنگ پیدا کرتا۔
جامع مسجد تریپولیہ کی تعمیر نو کے بعد، جب وہاں جمعہ کی امامت کے لیے کسی موزوں شخصیت کے انتخاب کا مرحلہ آیا، تو مسجد کے متولیوں نے حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ سے رجوع کیا۔ لیکن حضرت مولانا نے شرط رکھی کہ جامعہ مدنیہ سبل پور کی طرف سے جس کو منتخب کیا جائے، اسے آپ لوگ نہیں ہٹائیں گے۔ جب مسجد کے ذمہ داران نے حامی بھری تو جامعہ مدنیہ میں مشورے کے بعد مفتی خالد انور پورنوی کا نام تجویز ہوا، اور یوں یہ عظیم ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی۔
اس منبر پر مفتی صاحب کا عہد نہ صرف عبادات کی سربراہی تک محدود رہا بلکہ اس میں درسِ قرآن کے ذریعے علمی تشنگی بھی بجھائی گئی۔ جمعہ کے دن بعد نماز مغرب ان کا درسِ قرآن ایک ایسا چراغ تھا جو سامعین کے ذہن و دل کو نورِ علم سے منور کرتا رہا۔ ان سات برسوں نے نہ صرف جامع مسجد تریپولیہ کی تاریخ میں ایک یادگار باب کا اضافہ کیا بلکہ پٹنہ کی دینی، فکری اور سماجی تاریخ کو بھی ایک نئے رنگ سے مزین کیا۔
**مسجد عمر بن خطاب، نیو عظیم آباد، پٹنہ میں خطابت اور درس قرآن**
جامع مسجد تریپولیہ کے منبر سے ایک یادگار دور گزارنے کے بعد، مفتی خالد انور پورنوی کی خطابت کا چراغ مسجد عمر بن خطاب، نیو عظیم آباد، پٹنہ میں روشن ہوا۔ یہ مسجد، اپنے نام کی طرح، دینی بیداری اور روحانی قیادت کا مرکز بنی، جہاں مفتی صاحب کے خطبات نے علم و حکمت کی روشنی پھیلائی اور دلوں کو ایمان کی حرارت سے معمور کیا۔
یہاں صرف جمعہ کے خطبات تک بات محدود نہ رہی؛ بلکہ مفتی صاحب نے ایک منفرد اقدام کے طور پر اتوار کے دن نماز ظہر کے بعد قرآن کریم کے دروس کا آغاز کیا، جو جلد ہی اہلِ علم، متلاشیانِ حق، اور عوام و خواص کے لیے نورِ ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ ان دروس میں مفتی صاحب قرآن کے مضامین کو اس طرح بیان کرتے کہ وہ دلوں پر اثر انداز ہوں اور ذہنوں میں انقلاب برپا کریں۔ وہ عصر حاضر کے مسائل کو قرآن کی روشنی میں نہایت حکیمانہ انداز میں پیش کرتے اور سامعین کو عملی زندگی میں رہنمائی فراہم کرتے۔
مفتی صاحب کے خطبات اور دروس قرآن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف علمی گہرائی اور روحانی تاثیر کے حامل ہیں بلکہ ہر طبقے کے لیے یکساں مفید ہیں۔ ان کے ذریعے قرآن کے فہم و تدبر کو عام کیا گیا اور لوگوں کو اپنی زندگی میں قرآن کو رہنما بنانے کی ترغیب دی گئی۔
یہ سلسلہ، الحمدللہ، آج بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے۔ مفتی صاحب اپنے خطاب اور درس کے ذریعے نہ صرف لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کر رہے ہیں بلکہ قرآن کی ابدی تعلیمات کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کر رہے ہیں۔ مسجد عمر بن خطاب یوں ایک علمی و روحانی مرکز کے طور پر قائم ہے، جہاں سے ہدایت کے پیغام کی روشنی مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔
**جامع مسجد بدوپور، حاجی میں درس قرآن**
قرآنی خدمات کےدائرہ کا ایک کامیاب سلسلہ جامع مسجد بدوپور، حاجی میں بھی جناب عابد صاحب اور جنان حاوید صاحب برادران کی اصرارپرشروع کیا،آپ نے یہاں چند سال تک ہر اتوار کوعصر کی نماز کے بعد عوامی درس دیا، جس میں قرآن کریم کے مطالب و معانی کو نہایت سادہ مگر دل نشین انداز میں بیان کیا۔
ان دروس کا بنیادی مقصد سامعین کو قرآن کی گہرائیوں سے روشناس کرانا اور موجودہ دور کے مسائل کا حل قرآن کی روشنی میں پیش کرنا تھا۔ ہر درس اپنے اندر حکمت، بصیرت اور عمل کی ترغیب لیے ہوئے ہوتا۔ لوگ دور دور سے اس درس میں شرکت کے لیے آتے، اور آپ کے علم و فہم سے اپنے دل و دماغ کو منور کرتے۔
یہ سلسلہ کچھ سال جاری رہا اور علاقے میں دینی بیداری کا ذریعہ بنا، لیکن بعد میں عالمگیر وبا کے باعث لاک ڈاؤن کی پابندیوں نے اس بابرکت سلسلے کو موقوف کر دیا۔ اگرچہ یہ درس وقتی طور پر معطل ہوا، لیکن اس کی یادیں اور اثرات لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، اور امید ہے کہ جلد ہی یہ سلسلہ دوبارہ اپنی روشنی بکھیرے گا۔
**جمعیت علماء پٹنہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات**
جمعیت علماء پٹنہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ان کی خدمات کادرخشاں پہلو بھی بہت خوب رہا۔ اس منصب پر فائز ہوکر انہوں نے ملت اسلامیہ کی دینی، تعلیمی اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے جو نقوش چھوڑے، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔
آپ کی قیادت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے مختلف مکاتب فکر کے دلوں کو ایک دھاگے میں پرو دیا۔ آپ کی بصیرت نے مسالک کے درمیان پھیلی خلیج کو محبت و احترام کے پل سے پاٹ دیا اور ایک ایسا ماحول قائم کیا جس میں اتحاد و یکجہتی کے چراغ روشن ہوئے۔
آپ کی زیرقئادت جمعیت علماء پٹنہ نے نہ صرف ملت کے تعلیمی اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور دینی مدارس کی ترقی کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں اور معاشرتی بیداری کی نئی بنیادیں استوار کیں۔
دو ادوار پر مشتمل آپ کی قیادت درحقیقت حکمت، تدبر، اور اخلاص کا ایک عملی نمونہ تھی۔ آپ کے عزم نے نہ صرف ملت کی رہنمائی کی بلکہ آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیا کہ جب قیادت اخلاص اور بصیرت کے سنگم پر کھڑی ہو تو ملت کا ہر خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ یہ دور جمعیت علماء پٹنہ کی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جو وقت کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
**رابطہ مدارسِ اسلامیہ عربیہ بہار کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات**
26 اگست 2021 کو جب مفتی خالد انور پورنوی کو کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی شاخ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار کے جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا گیا، تو یہ نہ صرف ان کے لیے ایک اعزاز تھا بلکہ دینی مدارس کے لیے ایک نئی سمت اور مضبوط قیادت کا آغاز بھی تھا۔ اس وقت کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند سے بہار کے 333 مدارس مربوط وملحق تھے، اور کئی اضلاع میں رابطہ مدارس کی شاخیں موجود ہی نہیں تھیں۔ لیکن آپ نے اپنی مدبرانہ قیادت اور مسلسل محنت سے نہ صرف مربوط مدارس کی تعداد کو 470 سے زائد تک پہنچایا بلکہ تمام اضلاع میں رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی شاخیں قائم کر کے اسے ایک مضبوط تنظیمی نیٹ ورک کی شکل دی۔
آپ کی قیادت میں رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار شاخ کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند نے دینی تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی انقلابی اقدامات کیے۔ مدارس کے نصاب میں ایسی اصلاحات کی گئیں جنہوں نے طلبہ کو علمی و عملی میدان میں بہتر طور پر تیار کیا۔ آپ نے مدارس کے انتظامی ڈھانچے کو جدید اصولوں پر استوار کرنے کے لیے سخت محنت کی، تاکہ یہ ادارے نہ صرف دینی علوم کی خدمت کریں بلکہ ملت اسلامیہ کو مضبوط بنیاد فراہم کریں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کی قیادت میں رابطہ مدارس نے نہ صرف ادارہ جاتی ترقی کی ہے بلکہ اس کا اثر دور رس بھی ثابت ہوا۔ آپ نے مدارس کے مسائل کو حل کرنے، ان کی تعلیمی معاونت کو یقینی بنانے، اور ان کے معیار کو بلند کرنے کے لیے حکومت اور عوامی سطح پر آواز بلند کی۔
آج، پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ رابطہ مدارس اپنے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے، اور یہ یقین ہے کہ مفتی خالد انور پورنوی کی قیادت میں یہ تحریک آئندہ بھی ترقی کی منازل طے کرتی رہے گی۔ ان کا عزم اور محنت نہ صرف موجودہ نسل کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ آئندہ آنے والے وقت کے لیے بھی ایک مثال بن کر رہے گی۔
**جمعیت علماء اور دینی تعلیمی بورڈ: عظیم خدمات کا تسلسل**
حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ کے انتقال پر ملال سے قبل جمعیۃ علماء بہار کی مجلس عاملہ نے مفتی خالد انور پورنوی کو دینی تعلیمی بورڈ جمعیۃ علماء بہار کا جنرل سکریٹری منتخب کیا۔ یہ انتخاب ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور ملت کے لیے ان کی بے لوث خدمات کا اعتراف تھا۔ مفتی صاحب نے اس منصب کو ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے پورے بہار میں دینی تعلیمی بورڈ کے کام کو فعال کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔خاص طورسے دینی تعلیمی بورڈ ان کی رہنمائی میں نہ صرف دینی مدارس کی تنظیم نو ہوئی بلکہ تعلیمی میدان میں کئی اصلاحات کی بنیاد رکھی گئی، جو آج بھی ان کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب کی خصوصی ہدایت پر انہیں جمعیۃ علماء بہار کا ناظم تنظیم و ترقی بھی منتخب کیا گیا۔ اس حیثیت میں مفتی خالد انور پورنوی نے نہایت حکمت و تدبر کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند کے پیغام کو بہار کی مختلف یونٹوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی رہنمائی میں جمعیۃ کی تحریکیں اور یونیٹیں مضبوط ہوئیں اور ملت کے اتحاد و ترقی کا ایک نیا باب رقم ہوا۔
**ملی تنظیموں کے دفاع میں قلم کی سپاہ گری**
ملک میں جب بھی دینی اور ملی تنظیموں کو چیلنجز کا سامنا ہوا یا کسی نے ان کی خدمات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی، مفتی خالد انور پورنوی کا قلم ایک مضبوط دیوار بن کر سامنے آیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف جمعیۃ علماء ہند بلکہ امارت شرعیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی تنظیموں کے حق میں بے مثال دفاع فراہم کرتی رہیں۔ ان کے قلم کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جذباتی ردعمل سے گریز کرتے ہوئے اکابرین اور بزرگان دین کے اصولوں کی ترجمانی کرتے ہیں، اور اپنی تحریروں کو حکمت اور بصیرت سے مزین کرتے ہیں۔
اگرچہ وہ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب کی قیادت میں جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ ہیں، لیکن جب بھی ملت کی دیگر تنظیموں پر کوئی حملہ ہوا، انہوں نے ہر فورم پر ان کا دفاع کیا اور مخالفین کو مدلل اور مضبوط جواب دیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف ملت کے دفاع کا وسیلہ ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا خزانہ بھی ہیں۔ مفتی صاحب کے قلم کی یہی خصوصیت انہیں دیگر لکھنے والوں سے ممتاز کرتی ہے، جو اکثر جذباتیت میں اپنی راہ کھو بیٹھتے ہیں۔
**مختلف پلیٹ فارمزسےتنظیمی اور تعلیمی خدمات کا دائرہ کار**
مفتی خالد انور پورنوی کی زندگی محض قلم وقرطاس ،خطابت اور تدریس تک محدود نہ رہی بلکہ انہوں نے ملت کے فکری، تعلیمی اور سماجی ارتقاء کے لیے تنظیمی پلیٹ فارمز پر بھی اپنی بصیرت اور عزم کی گہری چھاپ چھوڑی۔ ان کی خدمات مساجد کے منبروں سے لے کر مدارس کے نظام تک اور عوامی اجتماعات کی رہنمائی سے لے کر تنظیمی منصوبہ بندی تک، ایک وسیع منظر نامے پر محیط ہیں۔ وہ جہاں بھی رہے، وہاں اصلاح، اتحاد، اور خدمت کی نئی داستانیں رقم کیں، اور اپنے عزم و اخلاص سے ملت کو نہ صرف بیداری کی راہ دکھائی بلکہ اس پر ثابت قدمی سے چلنے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔