محمد قمر الزماں ندوی
ایک مسلمان کی دلی خواہش اور تمنا ہوتی کہ زندگی میں کم ازکم ایک بار وہ حرمین کی زیارت کرلے اور اسے حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہو جائے ،وہ وہاں جاکر کعبة اللہ کا طواف کرے ،صفا و مروہ کا چکر لگائے ،حجر اسود کو بوسہ دے ،آب زمزم سے اپنی پیاس بجھائے، ملتزم کے پاس جاکر لپٹے اور اللہ کے لئے روئے اور آنسو بہائے ،میزاب رحمت کے پاس دعائیں مانگے اور ان راہوں پر چلے جہاں اس کے محبوب کے قدم پڑے ہیں اور وہاں سجدہ ریز ہو، جہاں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، وہاں کی اس فضا میں سانس لے ،جس کی ہوا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاس کی عطر بیزی ہے ،اس آب حیات سے سیراب اور تشنہ کام ہو جس کو آپ کے حیات بخش لبوں نے چھویا اور مس کیا ہے ۔ نیز ایک مومن کی وہاں جاکر یہ تمنا بھی ہوتی ہے کہ
ان مکانات اور مقامات مقدسہ کی زیارت کرے جنہیں محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت اور تعلق حاصل ہے، غرض مکہ و مدینہ ہر صاحب ایمان کی روح کا نشیمن اور دل کا مسکن ہے ،اس کو وہاں جینے اور مرنے کی تمنا رہتی ہے اور وہاں کی زمین میں دفن ہونے کی دیرنہ آرزو رہتی ہے، اس کے دل کی یہ آواز ہوتی ہے کہ
رات دن ہے خیال طیبہ کا
تن یہاں ہے تو من مدینے میں
خاک طیبہ کا دو کفن مجھکو
مجھکو کر دو دفن مدینے میں
آج کی مجلس میں ہم وہاں کی مساجد اور وہاں کے بعض ان مقامات مقدسہ کا ذکر کریں گے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت حاصل ہے اور آپ سے نسبت کی بنا پر وہ قابل دید اور قابل زیارت ہے اور ہر حاجی اور عمرہ کرنے والا جب وہاں پہنچتا ہے تو ان مساجد اور مقامات کی بھی زیارت کرتا ہے اور حسب توفیق ان مساجد میں نوافل ادا کرتا ہے اور ان مقامات کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کو پر نور اور اپنی روحوں اور اپنے قلوب کو منور و مجلا کرتا ہے ۔۔
راقم کو بھی اس سفر میں حرمین کے علاؤہ جن مقامات کو دیکھنے ان کی زیارت کرنے اور جن بعض مساجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملا ،اس کی دینی شرعی اور تاریخی حیثیت کو ہم یہاں سادہ زبان اور سہل اسلوب میں پیش کرتے ہیں تاکہ اس تحریر کے ذریعہ وہاں کے ان مقامات مقدسہ کا تعارف ہو اور وہاں جانے والے کے لیے پہلے سے بہت کچھ واقفیت ہو جائے ۔۔۔۔
جبل بو قبیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پہاڑی مکہ مکرمہ میں واقع ہے، جو صفا کی پہاڑی کے نزدیک بیت اللہ شریف کے بالکل سامنے ہے ۔اگر آپ حرم شریف سے حجر اسود کے رخ کے سامنے دیکھیں تو بھی یہ پہاڑ نظر آتا ہے ۔ اس پر خوبصورت محل اور مکان بھی تعمیر ہے ۔یہ مکہ مکرمہ کے پہاڑوں میں سب سے افضل ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبل بو قبیس سب سے پہلا پہاڑ ہے، جو دنیا کی سطح پر نظر آیا ۔ اور ایک روایت کے مطابق طوفان نوح کے بعد حجر اسود اسی پہاڑ میں امانت کے طور پر محفوظ رہا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزئہ شق القمر انگلی کے اشارے سے چاند 🌙 کے دو ٹکڑے ہونے کا مشہور واقعہ ،جس کا بیان قرآن کریم میں ہے ،اسی پہاڑ پر دنیا والوں کو دکھایا تھا ۔مسجد بلال رض بھی اسی پہاڑ کے اوپر واقع تھی ۔لیکن بہت سے مورخین کا کہنا کہ یہ صحیح مسجد ہلال ہے ۔ کیونکہ مکہ معظمہ وادیوں میں گھرا ہوا ہے لہذا اس جگہ چاند دیکھا جاتا تھا اور چاند 🌙 کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ بھی اسی جگہ پر ہوا تھا ۔ اس پہاڑ کی دور سے ہی زیارت ہوتی ہے وہاں جانے کا عام آدمی کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے ۔
مولد النبی ص یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفا مروہ اور حرم مکی کی مشرقی جانب ایک عمارت ہے، جو اب لائبریری ہے اور وہاں مکتبة مکة ال مکرمہ کی تختی لگی ہے،، وہ مکان ایک سادہ سا مکان ہے ،ساتھیوں نے بتایا کہ یہ جگہ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
مولد النبی ۔۔۔۔۔۔۔اب یہ مکان تو اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں ہے، جو آج سے ساڑھے چودہ سو برس پہلے تھی، تاہم یہ مکان عین اسی جگہ پر واقع ہے ۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی اور یہ عبد المطلب کا ذاتی مکان تھا اور بنو ہاشم کا محلہ تھا ۔ محلہ شعب عامر کی ایک گلی سوق اللیل ہے ،جہاں نیلے رنگ کے دروازے والے مکان میں ایک چھوٹی سی لائبریری ہے، جس کے بورڈ پر مکتبہ مکہ المکرمہ لکھا ہے ۔ یہ لائبریری در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کا گھر ہے، جن کا انتقال سفر میں یثرب کے ایک مقام میں ہوگیا تھا ۔اسی مکان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔ہہ پیر کا دن تھا ربیع الاول کی 9/ یا 12 تاریخ تھی، اپریل کی 20/ یا 23/ اور سن عیسوی 571ء تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو اس وقت میرے جسم سے ایک نور نکلا، جس سے ملک شام کے محل روشن ہوگئے ۔بعض روایت کے مطابق ولادت کے بعض واقعات نبوت کے پیشِ خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہوئے ۔ مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہوگیا ،بحیرئہ ساوہ کے گرجے گرگئے ، ایوان کسریٰ کے کنگورے ٹوٹ کر گر پڑے ۔حضرت آمنہ نے آپ کے دادا عبد المطلب کو آپ کی ولادت کی اطلاع بھجوائی تو آپ خوشی سے گھر تشریف لائے ۔نومولود کو اٹھایا اور کعبہ میں لے کر آئے ۔اللہ کا شکر ادا کیا اور محمد نام رکھا ،والدہ نے احمد نام رکھا یہ دونوں نام عرب میں معروف نہ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کے آثار بچپن ہی سے ہویدا تھے ۔ آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کے بارے میں ایک واقعہ سے متاثر ہوکر ایک شعر کہا تھا جس کا ترجمہ ہے وہ خوبصورت ہیں ۔ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے ،یتمیوں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں ۔
اس شعر کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں قحط اور خشک سالی کی وجہ سے بڑی دقت پیش آئی ۔وادئی مکہ کے لوگ ابو طالب کے پاس آئے اور کہا ابو طالب! قحط کے ہاتھوں بچے بھوک و پیاس سے بلک رہے ہیں، چلئے کعبہ میں چل کر دعا کیجیے ۔ابو طالب نے کمسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پکڑی اور اپنے ساتھ کعبہ میں لائے ۔کعبہ پہنچ کر ابو طالب نے آپ کی پیٹھ کعبہ کے ساتھ ٹیک دی ۔اس وقت آسمان پر ایک بھی بادل کا ٹکڑا نہ تھا ۔دعا کی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے بادل جھوم کر آئے اور موسلا دھار بارش ہوئی وادی بھر گئی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی حیرت انگیز ہے اور قابل تقلید اور لائق رشک ہے ، سیرت کی کتابوں میں آپ وہ سب کچھ پڑھ سکتے ہیں ۔