نامور عالم، ممتاز مصنف: مولانا ندیم الواجدی
شاہنوازبدر قاسمی
شہر دیوبند کی نامور علمی شخصیت، ممتاز عالم دین، مشہور مصنف، محقق، سینئرصحافی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن، دارالکتاب دیوبند کے مالک، ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر، معہد عائشہ صدیقہ للبنات دیوبند کے بانی اور درجنوں دینی و تعلیمی اداروں سے وابستہ عظیم ہستی حضرت مولانا ندیم الواجدی گزشتہ شب14 اکتوبر2024 بعد نماز عشاء مختصر علالت بعد امریکہ کے شکاگو شہر میں رحلت فرماگئے۔ انا للہ وانااللہ راجعون
مولانا ندیم الواجدی 23جولائی 1954کو اترپردیش کے دیوبند میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محترم مولانا واجد حسن دیوبندیؒ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کے شیخ الحدیث اور ملک کے بزرگ عالم دین تھے، مولانا ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم دیوبند میں حاصل کی، اس کے بعد مفتاح العلوم جلال آباد گئے اور 1974میں دارالعلوم دیوبند سے سند فضلیت حاصل کی۔
مولانا ندیم الواجدی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کئی حالات کا سامنا کیا اور ایک کامیاب تاجر اور ناشر کتب کی حیثیت سے مقبول ہوئے۔ مولانا بے پناہ صلاحیت کے مالک تھے، خاص طورپر اردو زبان و ادب کو انہوں نے اپنی شناخت اور پہچان بنائی، زمانہ طالب علمی سے ان کے مضامین معتبر اخبارات و رسائل میں چھپنے لگے۔عزت، شہرت اور دولت کے ساتھ ایک پرسکون زندگی گزار کر وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مولانا کے اکلوتے فرزند ممتاز فاضل دارالعلوم دیوبند مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی اس وقت عالمی سطح پر مسلم نوجوانوں میں بیحد مقبول اور پسندیدہ بنے ہوئے ہیں یہ مولانا ندیم الواجدی کی توجہات اور تربیت کا نتیجہ ہے۔
سن 2007کی بات ہے مولانا کے خسر محترم حضرت مولانا نعیم صاحب سابق شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کا امریکہ میں انتقال ہوا، زمانہ طالب علمی میں ترجمان دیوبندجیسے اہم رسالہ کیلئے میں ایک مضمون لیکر ان کے پاس پہونچ گیا، یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی، اس وقت بحیثیت ایک طالب علم کے ترجمان دیوبند میں مضمون چھپنا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے نہ صرف وہ مضمون شائع کیا بلکہ مستقل طورپر لکھنے کی ہدایت کی اور کئی سالوں تک میری تحریروں کو ترجمان دیوبند میں اہتمام کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ان دوران مولانا سے ملنے جلنے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور ہمیشہ حوصلہ افزائی اور ایک مربی کی طرح پیش آتے رہے۔ مولانا ایک بافیض عالم دین تھے، دارالکتاب میں بیٹھ کر انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے سینکڑوں طلبہ کو علمی دنیا میں متعارف کرایا اور ہر ممکن مدد اور رہنمائی کی۔
مولانا ندیم الواجدی ایک اصول پسنداور وقت کے بیحد پابند انسان تھے، معاملات اور لین دین میں صاف ستھرے تھے۔انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود بھی لکھنے پڑھنے کو کبھی نہیں چھوڑا اور زند گی کی آخری ایام تک لکھنے کا معمول جاری رکھا۔مولانا صرف اخبارات میں نہیں لکھتے تھے بلکہ ان کی درجنوں علمی و تحقیقی کتابیں اس بات کی گواہ ہے کہ وہ صاحب علم وفن تھے اور علمی سرمایہ کو جمع کرنے میں کتنا مصروف عمل تھے۔انہوں نے دیوبند جیسے شہر میں رہتے ہوئے کسی ادارہ سے وابستہ ہوئے بغیر علمی اور تجارتی دنیا میں ایک پہچان بنائی جو آسان نہیں ہے، وہ اچھے عالم دین کے ساتھ خوش اخلاق شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے بڑی مشکل اور کوششوں سے کامیابی کی اس منزل کوپایا تھا، کئی مواقع پر اپنے زمانہ طالب علمی اور ماضی کو یاد کرکے افسردہ ہوجاتے تھے، ان کی نجی مجلسوں میں مجھے کئی برسوں تک خوب بیٹھنے کا موقع ملا، وہ خوش مزاجی کے ساتھ ہنسی و مذاق میں بھی ماہر تھے، اپنے دوست و احباب اور عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش ہوتے تھے۔جب بھی ملتے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے اور مفید مشوروں سے نوازتے، میدان صحافت سے میری وابستگی میں مولانا کا بھی اہم کردار تھاان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، جب بھی کسی مسئلہ میں الجھتا ان سے ضرورمشورہ کرتا، وہ کہتے تھے اس دنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہے اگر حالات بدلنے ہیں تو محنت اور جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا،انہوں نے خود بھی اسی راستے پر چل کر ایک کامیاب اور مثالی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا۔
جب یوپی کے سابق وزیر اعلی ملائم سنگھ باحیات تھے، انتخابی گہما گہمی کے دوران ایک دن میرے پاس لکھنو سے ایک سینئر صحافی دوست کا فون آیا کہنے لگے ملائم سنگھ دیویند کے کسی مولانا سے بات کرنا چاہتے ہیں۔میں نے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف کے کئی ذمہ داران سے رابطہ کیا لیکن کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے میں مولانا ندیم الواجدی کے یہاں پہونچ کرکہاکہ ملائم سنگھ آپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتے ہیں، پہلے انہیں یقین نہیں ہوا لیکن بات چیت کے بعد بہت خوش ہوئے اس واقعہ کے بعد ملائم سنگھ نے اپنے بیٹے اکھلیش یادو کو دیوبند بھیجا۔اس طرح کے کئی واقعات ہیں، سیاسی و سماجی حلقوں بھی میں مولانا مقبول تھے اور انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، سیاست سے دوری کے باوجود بھی کئی نامور سیاست داں مولانا سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے مشوروں سے فیض یاب ہوتے تھے۔
تین ماہ قبل دیوبند سفر کے دوران مولانا سے ان کے کتب خانہ میں میری ملاقات ہوئی، کافی خوش ہوئے، بہار آنے اور میرے اسکول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہنے لگے دعا کرنا، میں نے ان سے کہاکہ مولانا حسن الہاشمیؒ، مولانا اسلام قاسمی ؒ اور استاذ محتر م مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ کی وفات کے بعد اب دیوبند آنے کا دل نہیں چاہتا ہے اب آپ اکیلے بچے ہیں اس میدان میں جن سے مل کر خوشی ہوتی ہے، دیوبند کے کئی دوست و احباب اس دنیا سے رخصت ہوگئے جن سے میری قربت تھی۔دیوبند کے بدلتے ہوئے ماحول اور مزاج کو دیکھ کر حیرانی بھی ہوئی اور تکلیف بھی۔دھیرے دھیرے دیوبند کی جو علمی شناخت اور پہچان تھی وہ بدلتی جارہی ہے، ایسے میں مولانا ندیم الواجدی کی رحلت یقیناعلمی دنیاکیلئے کسی عظیم خسارہ سے کم نہیں ہے وہ صحافتی دنیا میں دیوبند کے ترجمان تھے، فکر دیوبند اور اکابرین کی نظریات کو نئی نسل تک پہونچانے میں کوئی کمی نہیں کی، وہ ایک دور اندیش اور منجھلے ہوئے عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مثالی انسان تھے، ان کی تحریروں میں چاشنی تھی، معلوماتی ہونے کے ساتھ علمی اور تحقیقی ہونے کی وجہ سے مولانا کے مضامین کو علمی حلقوں میں خوب پسند کیا جاتا تھا، اردو صحافت میں مولانا نے دیوبند کو ایک نئی شناخت دی اور اپنی تحریروں سے بہت سی غلط فہمیوں اور مسلکی تنازعات کا خاتمہ کیا۔
مشہور صاحب قلم مولانا نسیم اخترشاہ قیصر ؒ نے اپنی کتاب”اپنے لوگ،، میں مولانا ندیم الواجدی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مولانا ندیم الواجدی نے جس دور میں لکھنا شروع کیا وہ دور بڑوں کا انتہائی عروج کا دور تھا اس زمانے میں کسی نووارد کااس میدان میں داخل ہونا اور اس انداز میں داخل ہونا کہ بڑے بھی اس کے معترف ہوں یہ ایک خدائی انعام ہے اور یہ نعمت ہے جو ہر ایک کا حصہ نہیں بنتی۔مولانانے اپنی نگارشات سے ابتداہی میں چونکا دیا تھا اور پھر قدم بہ قدم وہ ایک ایسی منزل پر پہنچ گئے جہاں اب دیوبند میں کسی دوسرے کی رسائی ممکن نہیں ہے۔
مولانا ندیم الواجد ی دیوبند میں پیدا ہوئے اور موقع ملنے کے باوجود بھی امریکہ جیسے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے بجائے پوری زندگی دیوبند میں گزاردیااور اپنے شہر میں رہنے کا حق اداکردیا، فی الحال وہ اپنے بیٹے مفتی یاسر ندیم سے ملنے امریکہ گئے ہوئے تھے وہیں طبعیت علیل ہوئی اور ہارٹ کے آپریشن کے بعد طبیعت میں بہتری آنے کے بعد وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے ہم سب سے جدا ہوگئے۔ان کی نماز جنازہ امریکہ کے شکاگو شہر میں آج بعد نماز ظہر اداکی گئی اور انہیں سپردخاک کردیا گیاان کی وفات پر علمی دنیا میں غم کا ماحول ہے، ۔اللہ پاک مولانا کی مغفرت فرمائے اور تمام اہل خانہ خاص طورپر برادرم مفتی یاسرندیم کو صبر جمیل عطافرمائے۔