نبی کریم ﷺ کی حکمرانی

نبی کریم ﷺ کی حکمرانی
خالدانورپورنوی،المظاہری
فکرونظر14
محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ جب اس دنیا میں تشریف لائے،انتہائی ہی بے اطمینانی اوربے سروسامانی کے عالم تھا،چندلوگ تھے،نہتے،فاقہ کش، غریب ،مفلوک الحال اورتنگ دست۔دوسری طرف دنیاکی تمام سیاسی قوتیںمشرق ومغرب کی دوعظیم الشان طاقتوں کے زیرسایہ ،مشرق کی نمائندگی فارس کے کسریٰ اورمغرب کی نمائندگی قسطنطنیہ کے قیصرکررہے تھے، اوران دونوں کی سرحدیں عرب کے عراق وشام کے حدودپرآکرملتے تھے،عرب کے قبائل جن میں ذرابھی تہذیب وتمدن نہ تھاوہ انہی دونوں میں سے کسی ایک کے زیراثرتھے۔
ان حالات میں عرب کی سرزمین پرنظام حکومت قائم کرنااتناآسان نہیں تھااورنہ ہی محض اسلامی تہذیب وتمدن کی داغ بیل ڈال دیناہی مسئلہ کاحل تھا؛بلکہ اس سے بھی اہم کام یہ تھاکہ عرب قوم کوغیرقوموں کے دماغی تسلط ، سیاسی مرعوبیت،اوران کے اخلاقی وتمدنی اثرسے آزادکرایاجائے،اورسارے عالم کوانسانوں کے خودساختہ قانون کی غلامی سے نکال کرقانون الٰہی کی اطاعت وفرمانبرداری میں دیدیاجائے،اوردنیاکوبتایاجائے کہ قانون الٰہی کو چھوڑ کر دو سر ے انسانی قوانین کی پابندی شرک کادوسراراستہ ہے۔

آپ ﷺیقیناپوری دنیاکی اصلاح وہدایت کیلئے مبعوث ہوئے تھے؛لیکن آپ نے اپناکام عرب سے شروع کیا،اورعرب میں بھی عرب کے اندرونی حصے تہامہ ،حجازاورنجدکے سامنے سب سے پہلے اسلام کوپیش کیا، اورآپ ﷺکی ۲۳؍سالہ زندگی کے تقریباًسولہ،سترہ سال اسی قبائل کی اصلاح وہدایت کی نذرہوگئے۔

پھرآپ ﷺنے مدینہ کی طرف رُخ کیا،اورایک ایسے سنگلاخ زمین کودارالہجرت بناناپسندکیا،جومکہ سے زیادہ پرخطرتھا،اورنہ شروع میں مہاجرین کیلئے اس کی آب و ہواسازگارتھی،لیکن قدرت کوکچھ اورہی منظورتھا،رفتہ رفتہ نظام اسلام قائم ہونے لگا،اورصلح حدیبیہ نے تومکہ مکرمہ کاراستہ بھی صاف کردیا،اورمکہ فتح ہوگیا،آپ ﷺ نے روم کے قیصراوردیگرسلاطین ورؤساء کے نام خطوط لکھے،اورانہیں اسلام کی دعوت دی،نجاشی بادشاہ نے فوراً اسلام قبول کرلیا،اوریمن کے تمام رؤسا نے بھی رفتہ رفتہ اسلام کاقلادہ اپنے گردن میں ڈال لیا،عرب کے حدود میں ایک غسانی سلطنت تھی،اس کا بھی قلع قمع ہوگیا،اب پوراعرب اسلام کے سایہ کے نیچے تھا،مدینہ دارالسلطنت تھا، اوریہاں کافرمان پورے عرب پرجاری ہوتاتھا۔

حجۃ الوداع کے موقع پر،تقریباایک لاکھ ۲۴؍ہزارصحابہ کرام ثکی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی شہنشاہیت کا آپﷺنے اعلان فرمایا:’’الیوم استدارالزمان کھیئتہ یوم خلق اللہ السموٰتِ والأرض‘‘ زمانہ پھراسی مرکزیہ پرآگیا،جس پر اس دن تھا،جس دن خدانے آسمان وزمین پیداکیا۔

یہ ایک عظیم الشان انقلاب تھا،جس نے انسانوں کے تمام خودساختہ قوانین ،سیاسی تکلفات ،بدعات اور مظالم سے لبریزشاہانہ نظامہائے سلطنت کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا،قیصروکسریٰ کی شخصیتوں کاخاتمہ کردیا۔اب صر ف خدا کاقانون،خداکی حکومت،اورایک ایسے عادلانہ سلطنت کی بنیاد ڈالی گئی،جس میںتمام مسلمانوں کایکساں حق، کوئی تفاوت نہیں،کوئی بھیدبھاؤ،نہیں،ہرشخص خودہی حاکم اورخودہی اپنامحکوم۔یہی مطلب ہے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد مبارک کا:’’تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے،اورہرشخص سے اس کی زیرنگرانی اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔

دنیاکے بادشاہوں کاحال یہ ہے کہ وہ فاتح بن کرجب کسی علاقہ میںگھستاہے تولاکھوں کو تہہ تیغ کرکے اپنی طاقت وقوت سے سارے جھتوں کو توڑکرہزاروں گھروں کوویران وبرباداورسب کوزیرکرکے اپنی سرداری وباد شا ہی کا اعلان کردیتاہے،مگریہاں ان میں سے کوئی بھی چیزمقصودنہیں تھی،نہ رسول اللہﷺ کی شخصی سرداری،نہ خاندان قریش کی بادشاہی،نہ عربی سلطنت ،نہ دنیاکی حرص وہوس،اگرایساہوتاتوآپ ﷺ توشروع ہی میں سرداران قریش سے سمجھوتہ کرلیتے،جب انہوں نے کہاتھاکہ :تم ہمارے دیوتاؤںکوگالی نہ دو،اگرتم بادشاہ بنناچاہتے ہوتو ہم تمہیں بادشاہ بنادیتے ہیں،اگرسرداری مقصودہے توہم تمہیں سردارمان لیتے ہیں،مال چاہتے ہوتودولت کا ڈھیر لگادیتے ہیں،نبی کریم ﷺ نے صاف صاف جواب دیاان میں سے کسی چیزکی خواہش نہیں ہے،میں صرف رب کاپیغام سنا دینا چاہتاہوں،اگرمان لوتو دنیاوآخرت میں بھلائی ہوگی۔

دنیاکی سلطنتوں میں شخصی،خاندانی جاہ وجلال ہوتے ہیں،رعب ودبدبہ ہوتاہے،اورشاہانہ ہیبت کے ذریعہ احکامات ماننے کاپابندبنایاجاتاہے،مگرنبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے مسلمانوں کے دلوں میں اس طرح ایمان کی روشنی پیدافرمادی کہ ہرفردبغیرکسی جبرواکراہ کے سلطنت کے قوانین کی پابندی پر مجبور ہوجاتا ۔ اسلام کایہ نظام سلطنت نبی کریمﷺ اورخلفاء راشدین کے زمانہ تک بڑی کامیابی کے ساتھ قائم رہا،اس نظام سلطنت میں قانون کی روسے چھوٹے، بڑے، اونچے، نیچے، کالے، گورے،عربی وعجمی کی تفریق مٹ گئی،یمن اوربحرین کے ایران نژاد، نجدوحجازکے عرب ،حبش کے حبشی سب ایک ہی سطح پر آگئے،اوربادشاہی وشہنشاہی کے وہ تخت جومشرق ومغرب میں تھے الٹ گئے،اسلام کی سلطنت کاامام اوردوسرے چھوٹے بڑے حکام عام مسلمانوں کے برابرکردیئے گئے۔

دنیاکے باشاہ اونچے اونچے محلوں اورایوانوں میں بڑے بڑے قیمتی لباسوں،سونے چاندی اورہیرے جواہرات کے زیوروں سے آراستہ ہوکربیش بہارتختوں پربراجمان ہوتے،ان کے امراء سونے چاندی کی مرصع کرسیوں اورریشمی گدوں پربیٹھتے تھے،نبی کریم ﷺ نے ان مصنوعی تفرقوں کومٹادیا،نشست کیلئے سونے،چاندی کا سامان اورریشمی لباس وفرش حرام کردیئے،طلائی ونقرئی تخت اٹھوادیئے گئے،امام وقت اورحاکم عام مسلمانوں کے ساتھ کاندھاسے کاندھاملاکربیٹھتے،پستی وبلندی کی تفریق مٹ گئی،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ در خوا ست بھی کی کہ آپ ایک شاہی عباخریدلیں،تاکہ جب دوسرے شہروں اورملکوں سے آپ کے پاس وفودآئیں تو زیب تن فرمالیں لیکن نبی کریم ﷺ نے اشتباہ کے اس پردے کوچاک کردیاکہ مسلمانوں کاپیشواشاہانہ جاہ وجلال کے ا ظہارکیلئے مبعوث نہیں ہواہے، اور فرمایا :جوشخص اس کو پہنتاہے،آخرت میں اس کا کچھ بھی حصہ نہیں ہے۔

اٹھنے ،بیٹھنے میں تفوق وبرتری کے امتیازکواس طرح مٹادیاآپ میں اورایک عام آدمی میں کوئی فرق نظرنہیں آتاتھا،آنحضرتﷺ جب صحابہ کرام کی مجلس میں بٹھتے توباہرسے آنے والوں کوپوچھناپڑتاتم میں محمد (ﷺ) کون ہے؟ لوگ اشارہ سے بتاتے ،صحابہ نے چاہاکہ کم ا زکم ایک چبوترہ ہی بنادیاجائے مگرآپ نے اسے بھی پسندنہیں کیا۔

شاہانہ حکومتوں میں بادشاہ اورشاہی خاندان کے ا فرادقانون کی زدسے مستثنیٰ ہوتے،مگریہاں حال یہ تھاہے کہ سب برابرہیں،بلکہ نعوذباللہ اہل بیت سے کوئی نافرمانی سرزدہوتواس کودوہری سزاہے،ایک بارایک مخزومی خاتون فاطمہ بنت قیس نے چوری کی،آنحضرت ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کاحکم صادرفرمایا،وہ معززخاندان کی بی بی تھیں،صحابہ کرام کویہ گراں گزرا،انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حضرت اسامہ بن زیدکے ذریعہ سفارش کرانی چاہی ،آپ ﷺنے فرمایا:تم سے پہلی قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتاتواس کو سزادی جاتی تھی،مگرجب وہی جرم بڑے رتبہ کے لوگ کرتے تھے توان کو چھوڑدیتے تھے،آپ ﷺنے یہاں تک فرمایا: اگرمحمدکی بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو میں یقینااس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

آپ ﷺ ایک بارمال تقسیم کررہے تھے ایک آدمی آیااورحرص کے مارے آپﷺ پرٹوٹ پڑا،آپ ﷺکے ہاتھ میں کھجورکی چھڑی تھی،آپ ﷺ نے اس سے ماردیا، جس سے چہرہ پرزخم آگیا،آپ ﷺنے دیکھا تو فرمایا: آؤمجھ سے قصاص لو،لیکن اس نے کہا:یارسول اللہﷺ میں نے معاف کردیا۔

نبی کریم ﷺ نے جس نظام عدل،مساوات،اور بہترین اخلاق کے ذریعہ دنیاکو زیرنگیں کیا،اسی نظام اور طریقہ کارکے ذریعہ آج بھی دنیاکو فتح کیاجاسکتاہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم پھرسے نبی کریم ﷺ کی سیرت اور اخلاق کردارکو پڑھیں،اور اس کو اپنی زندگی میں پیش کریں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے