لقمان عثمانی
(ایڈیٹر: فیضانِ حبیب)اعظم گڑھ یوپی
خلّاقِ اعظم نے مسلمانوں کو تمام اقوامِ عالم پر ایسے امتیازات عطا کیے ہیں جن کی نظیر دوسری قومیں پیش کرنے سے بالکلیہ قاصر ہیں، وقف کا تصور بھی انہی امتیازات و خصوصیات میں سے ایک ہے؛ چناں چہ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی اور اس کے فضائل بیان کیے گئے، خصوصا جب اعلانِ باری تعالی: { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران: 92 ) } (تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو) کا نزول ہوا تو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی محبوب ترین چیزیں بھی راہِ خدا میں صدقہ کردینے میں ایک لحظہ بھی تامل نہیں کیا اور آج تک مسلمانانِ عالم، قرآن و حدیث کے احکامات کی تعمیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فدائیت و محبوبیت کے اظہار اور صحابۂ کرام کے اسی جذبۂ ایثار کی اتباع میں اپنا سب کچھ لٹانے کو باعثِ سعادت سمجھتے اور اپنے لیے سامانِ مغفرت گردانتے ہیں اور عام چیزوں کو صدقہ کرنے کے علاوہ اپنی قیمتی املاک کو بھی مفادِ عامہ میں استعمال کے لیے راہِ خدا میں وقف کرکے اپنے لیے وسیلۂ نجات و ذخیرۂ آخرت بنا لیتے ہیں ـ
ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی وقف کردہ ہزاروں املاک ہیں جن میں بہت سی اراضی تو مختلف جہتوں سے ہمارے دارۂ تصرف میں ہیں لیکن وہیں کتنی ہی زمینوں پر اغیار کا ناجائز قبضہ و اختیار ہے؛ لیکن افسوس کہ اسی ناجائز قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے بر سرِ اقتدار فاشسٹ حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024ء پیش کیا ہے جو براہِ راست اسلام کے ایک امتیازی تصور میں بے جا مداخلت اور اس کے نظامِ عبادت اور شعائرِ اسلام پر حملہ ہے ـ
ہندوستان میں وقف املاک کے تحفظ و بقا اور واقف کے حسبِ منشا ان املاک کو صحیح مصرف میں لانے کے لیے سب سے پہلا قانون انگریزوں کے زمانے میں مسلمان ایکٹ 1923ء کے نام سے بنایا گیا تھا، پھر آزادیِ ہند کے بعد 1954ء میں وقف ایکٹ پاس کرکے ایک بورڈ قائم کردیا گیا جس کے تحت تمام وقف املاک کی نگرانی بورڈ کے سپرد ہوگئی تھی؛ تاہم چوں کہ وقف بورڈ اور اس کے عہدے داران حکومت کے زیرِ اثر تھے نیز محدود دائرۂ اختیار ہونے کی وجہ سے بھی بورڈ کو اپنا فریضۂ تحفظ ادا کرپانے میں ناکامی کا سامنا رہا؛ اسی لیے 1964ء میں سینٹرل وقف کونسل کا قیام عمل میں آیا تاکہ وقف املاک پر ناجائز قبضے کو ختم کرایا جا سکے، پھر اس کے بعد 1995ء میں وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے وقف ایکٹ 1995ء کو نافذ العمل کرکے سابقہ ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد بہت حد تک وقف املاک محفوظ ہوگئی تھیں، نیز 2013ء میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئیں جن کا مقصد یہ تھا کہ وقف املاک پر ناجائز قبضے کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے؛ بہر حال بورڈ کے قیام اور عہد بہ عہد ان ترمیمات سے وقف کردہ املاک کو کتنا تحفظ فراہم ہوسکا اور مسلمان ان سے کتنا فائدہ حاصل کرپانے میں کامیاب رہے نیز ان سب کے پسِ پردہ خود بورڈ کے عہدے داران کی کتنی نا اہلی کار فرما رہی؛ یہ ایک مستقل موضوعِ بحث ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ جس قدر بھی موقوفہ اراضی پر قائم مساجد و مدارس اور دیگر مراکز جو اب تک ہمارے تصرف میں ہیں، اگر حالیہ متنازع وقف ترمیمی بل کا قانونی طور پر نفاذ ہوگیا تو بلا شبہ ہم ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے ـ
بر سرِ اقتدار حکومت کی طرف سے مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء مکمل طور پر ان کی بد نیتی پر مُنتج ہے؛ کیوں کہ اس بل میں ایسی ایسی ترمیمات شامل ہیں جو وقف کے تصور اور اس کی حیثیت و نوعیت کو بدل کر بالکل بے معنی کر دیں گی، ساتھ ہی قبضہ شدہ املاک کو قانونی جواز فراہم کرنے کے ساتھ مزید ہماری سینکڑوں ایکڑ زمینوں پر قبضہ کرنے کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی اور پھر اسلامی مراکز جو ہمارے شعائر کا حصہ ہیں ان کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ جائے گا جو براہِ راست مذہبی امور میں بے جا مداخلت بھی ہے، آئینِ ہند پر حملہ بھی ہے اور ملک کی سالمیت کے لیے ایک طرح کا خطرہ بھی ـ
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے نفاذ کو غیر ممکن العمل بنانے کے لیے ہر سطح پر تحریک شروع کی جائے اور عوامی بیداری پیدا کرکے ایسا ملک گیر احتجاج برپا کردیا جائے کہ حکومت کے پاس اس ظالمانہ بل کو واپس لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے، مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ قربانیوں کی کوکھ سے ہی کامیابی جنم لیتی ہے اور یہ وقت پھر ہم سے انہی قربانیوں کا تقاضہ کررہا ہے ـ