شاہد رحمانی
آج دہلی کے سفر پر ہوں، جہاں ایک آپریشن کے لیے جارہا ہوں، اور میرے ساتھ میری بڑی بہن بھی ہیں۔ لمبے سفر کی وجہ سے بہن کو بھوک محسوس ہونے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرین میں کھانا دینے والا آیا اور ہمارے سیٹ اور ڈبے کا نمبر لکھ کر چلا گیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کھانے کی کیا قیمت ہے تو اس نے بتایا کہ ایک کھانے کی قیمت 140 روپے ہیں۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ کھانا لے آیا جس میں چاول، دال، پنیر، آلو کی سبزی، چٹنی کا پیکٹ اور مٹھائی شامل تھے۔ جب کھانا والا روپے لینے آیا تو میں نے کہا کہ بھائی صاحب، بل دکھا دیجیے۔ یہ سن کر وہ کچھ پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ کھانا میں باہر سے لے کر آتا ہوں، اس لیے بل نہیں ملتا۔ وہ بار بار پیسے لینے کی التجا کرتا رہا، لیکن میں نے اُسے کہا کہ بل کے بغیر پیسے نہیں دوں گا۔
کافی دیر بات کرنے کے بعد وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا، “آپ میرے بھگوان ہیں، جو آپ چاہیں دے دیں۔” میں نے اس کے خلوص کو دیکھ کر کہا کہ جو قیمت ہے، میں وہی دوں گا۔ آخرکار، میں نے اُسے 110 روپے دیے اور وہ چلا گیا۔ اس دوران ڈبے میں موجود مسافر ہماری باتیں دلچسپی سے سن رہے تھے اور میری تائید کر رہے تھے۔
کچھ دیر بعد ایک آنٹی اور انکل کو بھی بھوک لگی تو انہوں نے بھی کھانا منگوالیا۔ جب کھانا والا آیا تو انکل نے بھی میری طرح بل کا مطالبہ کیا، جس پر کھانا والا ایک بار پھر پریشان ہوگیا۔ اُس نے منیجر کو بلانے کی پیشکش کی اور کچھ دیر بعد منیجر صاحب آئے۔ آخر میں، معافی مانگنے کے بعد وہ بغیر پیسے لیے چلے گئے۔
یہ سفر میرے لیے ایک یادگار واقعہ بن گیا اور کچھ انمول چیزیں سیکھنے کا موقع ملا۔
محمد شاہد رحمانی
شعبہ صحافت جامعہ رحمانی مونگیر