یو ایس الیکشن کا رزلٹ آگیا ہے ڈونالڈ ٹرمپ 47ویں پریسیڈینٹ منتخب کر لیے گئے ہیں ۔ پھر سے فلوریڈا، الاسکا ایریزونا ،مشیگن اور نیواڈا ریپبلکن کے گڑھ ثابت ہوئے ہیں۔وہیں مشکل مانے جانے والے اسٹیٹس پینسلوینیا ، نارتھ کیرولینا اور جارجیا میں بھی ریپبلکن نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے ۔ ان تمام اسٹیٹس میں ٹرمپ نے وائٹ واش کیا ہے۔ وہیں کمالا ہیرس اپنے ہوم اسٹیٹس کیلیفورنیا سمیت مینے ،نیو ہیمپشائر ، ورجینیا اور ہوائی اسٹیٹس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ساکھ کو بچانے میں کامیاب رہی ہیں ۔ جہاں ڈیموکریٹک پارٹی پر لوگوں نے بھروسہ جتایا ہے۔
یونائٹیڈ اسٹیٹس میں کل 50 صوبے ہیں جن میں تقریبا501 کے آس پاس الیکٹورل ووٹس ہیں ۔ ہر اسٹیٹ کے پاس اس کی آبادی کے تناسب سے الیکٹورل ووٹ ہوتے ہیں، یہ الیکٹورل ووٹس اس اسٹیٹ کی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ جیتنے والے کنڈیڈیٹ کو 270 الیکٹورل ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس طرح یو ایس کا پورا الیکٹورل سسٹم ڈائیریکٹ اور انڈائریکٹ طریقے سے عوام کی نمائندگی کرتا ہے ۔
ریپبلکن پارٹی کے ٹرمپ نے کل 277 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے ہیں وہیں ڈیموکریٹک پارٹی کی کمالا ہیرس کو 224 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں ، سیٹوں کے تناسب سے دونوں پارٹیوں میں بڑا گیپ ضرور ہے لیکن ووٹ فیصد میں دونوں پارٹیاں تقریبا آس پاس ہیں ۔ ریپبلکن پارٹی کو 51 فیصد جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کو 47.5 فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ دوسرے امیدواروں میں گرین پارٹی کے جیل اسٹین ، آزاد امیدوار روبرٹ کنیڈی اور لیبر ٹیرین پارٹی کے امیدوار چارلس کلا ئیور کو زیرو الیکٹورل ووٹس ملے ہیں ۔
یو ایس الیکشن میں اس بار کلائمیٹ چینج ،اکنامی، ایجوکیشن اور امیگریشن کے ساتھ داخلی پالیسیوں پر خوب بحث ہوئی ، وہیں ڈیموکریٹک پارٹی کی خارجہ پالیسی کو ریپبلکن نے اہم مدعا بنایا الیکشن کے آخری مرحلے تک یہ مدعا حاوی رہا ۔ بائیڈن کی لچیلی پالیسی اور مڈل ایسٹ سے لے کر روس اور چین کے ساتھ متنازع تعلقات نے ڈیموکریٹک کو نقصان پہنچایا۔
اور بہت سے اہم مسائل پریسیڈینٹ بائیڈین کی خاموشی بھی سوال کے زد میں تھی ۔ ٹرمپ نے ان مدعوں کو الیکشن کا موضوع بنایا اور بھنانے میں کامیاب بھی رہے ۔ ٹرمپ اب دوسری بار ایک میعاد کے گیپ کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں ۔ ٹرمپ امریکہ کی 136 سال کی تاریخ میں دوسرے ایسے صدر ہوں گے جو ایک میعاد کے گیپ کے بعد دوسری بار صدر کا عہدہ سنبھالیں گے ، ٹرمپ ایک نئی طاقت اور مشن کے ساتھ وائٹ ہاؤس لوٹ رہے ہیں ، پورے صدارتی انتخاب کی تشہیر کے دوران وہ نہایت پرجوش دکھائی پڑے ۔ صدارتی تقریر میں بھی وہ جو بائیڈن پر بھاری پڑ رہے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ بائیڈن صدر کی امیدواری سے برخاست ہوئے ، ان کی جگہ پر وائس پریسیڈینٹ کمالا ہیرس کو ڈیموکریٹک کی طرف سے امیدوار بنایا گیا ۔ آناً فانا میں امیدوار کی تبدیلی بھی ڈیموکریٹک پارٹی کو بھاری پڑی نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے ہے ۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ جیت چکے ہیں ۔
لیکن سب سے اہم اور بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا صرف صدر بدل جانے سے امریکی پالیسی میں کیا کوئی تبدیلی آئے گی؟ اس کا کوئی واضح اور مستند جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ یو ایس کا سب سے مضبوط پہلو یہی ہے کہ حکومت میں ریپبلیکن ہوں یا ڈیموکریٹک اس کی خارجہ پالیسی میں بہت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جب براک اوباما صدر چنے گئے تب مڈل ایسٹ سمیت پورے افریقہ ریجن کو ان سے بہت امیدیں تھیں۔ لیکن وہ بنیادی طور صرف اور صرف یو ایس کے پریسیڈینٹ تھے اور بس ۔
ٹرمپ نے مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ویسٹ ورلڈ کے لیے جو وعدے کیے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ ٹرمپ کا یہ صدارتی عہد گزشتہ دور سے بالکل الگ ہوگا ۔ ان کے سامنے روس چین اور نارتھ کوریا کی شکل میں بڑے چیلنجز ہوں گے۔ مڈل ایسٹ کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ روس اور یوکرین کا مسئلہ ابھی بھی جس کا تس ہے۔ ٹرمپ ان سب کے ساتھ خارجہ پالیسی میں تال میل کیسے بٹھائیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ ٹرمپ کے ساتھ ان کی پوری ٹیم اور ان کی پارٹی ریپبلیکن کے لیے یہ جیت بہت اہم ہے۔ یو ایس کا سپر پاور بنے رہنا ٹرمپ کی پہلی ترجیح ہوگی جیسا کہ انہوں نے بار بار اپنے صدارتی تقریر میں اس کا اعادہ بھی کیا ہے۔ امریکہ کو 47ویں صدارتی صدر کے انتخاب پر مبارکباد
نثار احمد
06/11/2024