کچھ حقائق انکی زبانی،جنہیں ہم ناداں سمجھتے ہیں!

محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں جتنے انسان ہیں ،ہر ایک میں کمال،اچھائیاں اور خوبیاں ضرور ہیں،بعض میں زیادہ تو بعض میں کم ، کوئی بھی انسان بالکل نکما اور بے فیض نہیں ہے ، بعض دفعہ ہم کسی کو کم فہم ،ناداں اور بے شعور و بے عقل خیال کرتے ہیں، حالانکہ ان کے اندر بھی کوئی نہ کوئی خوبی، کمال، راز ،بھید اور ہنر کی بات ہمیں مل جاتی ہے ، ان کی باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ زندگی کا بھید اور راز جان لینا اتنا بھی مشکل نہیں ، جتنا لوگ سمجھ لیتے ہیں ۔ آج دوران مطالعہ ایک ایسا ہی واقعہ نظر سے گزرا ،جو دلچسپ بھی ہے اور مفید و موثر بھی اور جس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حکمت کی بات کبھی اللہ تعالیٰ ان سے بھی ظاہر کرا دیتا ہے ،جس کو ہم کم شعور بلکہ بے شعور اور بے عقل سمجھ لیتے ہیں ، تو آئیے اس واقعہ کو پڑھتے ہیں اور اس میں اپنے لئے علم و حکمت کے خزانے اور زندگی کے راز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔

"پاکستان میں نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے”فاؤنٹین ہاؤس” کے نام سے ذہنی مریضوں کا ہسپتال بنانے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد رشید چوہدری کہتے ہیں:
ایک روز میں فاؤنٹین ہاؤس پہنچا تو دفتر میں ایک عجیب منظر دیکھا۔ فرنیچر ایک طرف پڑا تھا اور سارے مریض خاموشی سے فرش پہ براجمان۔ ایک مریض تختہ سیاہ کے سامنے استاد بن کر کھڑا انہیں پڑھا رہا تھا۔ تختہ سیاہ پہ لکھا تھا "زندگی میں ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔” وہ یہ سوال ہر ایک سے پوچھتا اور اس کا جواب ایک رجسٹر میں لکھتا جاتا۔ اب تک چودہ افراد کے جواب لکھے جا چکے تھے۔ میں نے وہ رجسٹر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ان تمام جوابوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو زندگی میں ناکامی کی تمام وجوہات یکجا ہو جائیں۔ ان مریضوں نے اپنے استاد کو ناکامی کی جو وجوہات بتائیں وہ یہ تھیں:
*ہر وقت اعتراض کرنا۔
*ہر معاملے میں خود کو برحق سمجھنا۔
*بے مقصد زندگی گزارنا۔
*سچی بات چھپانا۔
*تبدیلی سے ڈرنا۔
*اپنی سوچ کو حتمی سمجھنا۔ *دوسروں کے بارے میں جھوٹ بولنا۔
*بدگمانی کا شکار ہونا۔
*دوسروں کی ناکامی پر خوش ہونا۔
*یہ ادراک نہ کرنا کہ لوگ چاہتے کیا ہیں۔
*اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں کے سر تھوپنا۔
*کمزور لوگوں پہ برہم ہونا۔*دوسروں کے کام نہ آنا۔
*فقد دولت کمانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا۔
*دل میں کینہ اور دشمنی رکھنا۔ *محنت سے جی چرانا اور غیبت کرنا۔
یہ تھے ان لوگوں کے جواب جنہیں ہم دیوانہ کہتے ہیں، پاگل سمجھتے ہیں۔ مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں نے پہلے تو ان کی حوصلہ افزائی کی اس کے بعد کہا کہ ناکامی کی وجوہات تو ہم جان گئے اب اس تختہ سیاہ پہ ایک اور سوال لکھو "کامیاب لوگ کیا کرتے ہیں۔” ان جوابوں کو بھی رجسٹر میں لکھو۔
اس سوال کے جو جواب آئے وہ یہ تھے:
*ہر شخص میں تعریف کا پہلو دیکھتے ہیں۔
*اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ *دوسروں کو معاف کرتے ہیں۔ *اپنی کامیابی پہ دوسروں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں۔
*اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
*دوسروں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
*ہر روز مطالعہ کرتے ہیں۔
*اپنی زندگی کے مقاصد طے کرتے ہیں۔
*منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
*علم حاصل کرتے ہیں اور دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ *مسلسل سیکھتے ہیں اور صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ *تبدیلی کو قبول کرتے ہیں۔
*ہر اچھی عادت کو اپناتے ہیں۔ *دوسروں کے کام آتے ہیں اور خدا کو یاد کرتے ہیں۔
میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کامرانی پر اس سے جامع فہرست کبھی کسی دانا نے بنائی ہوگی۔ میں یہ دونوں فہرستیں بہت دنوں تک دیکھتا رہا اور پھر چند پڑھے لکھے دوستوں کو بھجوائی اور کہا اس پر مضامین لکھیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ زندگی کا بھید جان لینا اتنا بھی مشکل نہیں۔ کامیابی اور ناکامی کو اگر ایک دیوانہ سمجھ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں جو علم و دانش کے داعی ہیں!
(چار آدمی، ڈاکٹر امجد ثاقب، صفحہ 81 تا 83 بک کارنر، جہلم)
آپ سب !!!!!! ذرا میرے قریب آئیں اور پوری توجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ پھر آہستہ آہستہ ان دونوں فہرستوں کو دیکھیں اور غور کریں کہ ہم میں کیا کمی ہے اور کون سا کمزور پہلو ہے جس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
(محمد سلیم قادری رضوی کی تحریر سے ماخوذ و مستفاد)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے